دارالحکومت تہران سمیت ایران کے درجنوں شہر کووِڈ-19 میں اضافے کی وجہ سے "ریڈ زون” قرار دیے جا چکے ہیں۔ شہریوں کو تہران چھوڑنے کی اجازت نہیں اور ایسا کرنے پر اُن پر جرمانہ بھی لگ سکتا ہے۔ صرف "ضروری” قرار دیے گئے کام کرنے والے افراد کو اپنی ملازمت کی وجہ سے شہر سے باہر جانے کی اجازت ہے۔
لیکن اسی شہر کی اوین جیل میں قید خواتین سیاسی قیدیوں کے خاندان کہتے ہیں کہ حکومت قیدیوں کے لیے اتنی احتیاط نہیں برت رہی۔ ماحولیاتی کارکن سپیدہ کاشانی اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والی زینب ہم رنگ کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انہیں اوین جیل میں کرونا وائرس لاحق ہو گیا ہے۔ ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں نہیں کی جا رہی۔ بڑا سوال یہ ہے کہ یہ وائرس کس طرح قیدیوں تک پہنچا کہ جو باقی دنیا سے کٹے ہوئے ہیں۔
خواتین رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ انہیں فون کال کے ذریعے پتہ چلا کہ دونوں کے کووِڈ-19 ٹیسٹ مثبت آئے ہیں اور انہیں قرنطینہ میں رکھا گیا۔ ہم رنگ ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں کہ جنہیں "سیاسی نظام کے خلاف پروپیگنڈا” کرنے پر 5 سال قید کی سزا دی گئی تھی جبکہ کاشانی ایک ماحولیاتی ماہر ہیں جنہیں 2019ء میں سات دیگر ماحولیاتی اداروں کے اراکین کے ہمراہ چھ سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ ان پر جاسوسی اور قومی سلامتی کے برعکس کام کرنے کا الزام ہے۔
مریم کلاران 66 سالہ جرمن ایرانی خاتون ناہید تقوی کی صاحبزادی ہیں، جو اوین ہی میں قید ہیں۔ مریم کہتی ہیں کہ
میں نے زندگی میں کبھی اپنی والدہ کو اتنے غم و غصے میں نہیں دیکھا جتنا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران کی گئی فون کالز میں دیکھا ہے۔ وہاں تقریباً 25 خواتین کو انتہائی محدود جگہ پر رکھا گیا ہے۔ باورچی خانے، غسل خانے اور بیت الخلا میں فاصلہ رکھنا تقریباً ناممکن ہے۔
مریم کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کی عمر انہیں بہت خطرے سے دوچار کرتی ہے۔ جب پہلی خاتون بیمار پڑیں تو طبی عملے نے انہیں بتایا کہ یہ محض نزلہ بخار ہے۔ اس کے بعد جب بخار شدید ہوا اور ٹیسٹ مثبت آیا تو پتہ چلا کہ انہیں تو کرونا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ سپیدہ کاشانی اور زینب ہم رنگ اب قرنطینہ میں ہیں، لیکن باقی کا کیا ہوگا؟ وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ ہی ایک ہی جگہ پر تھیں، کیا اب بھی دیگر خواتین کا ٹیسٹ نہیں ہونا چاہیے۔
اس صورت حال نے اوین جیل کے خواتین والے حصے میں سنگین صورت حال کے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔
قیدیوں میں صدرا عبد اللہی کی اہلیہ عالیہ مطلب زادہ بھی شامل ہیں جو ایک صحافی اور خواتین کے حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ "میری بیوی نے مجھے فون پر کال پر بتایا کہ زینب ہم رنگ کو کرونا ہوا ہے اور انہیں اب خواتین کے حصے میں دیگر قیدیوں کی پریشانی ہے۔ آج بتایا گیا کہ سپیدہ کاشانی کو بھی کرونا ہو گیا ہے۔”
عبد اللہی نے کہا کہ
مسئلہ یہ ہے کہ قیدیوں کے ٹیسٹ کرنا جیل کے معمولات میں شامل ہی نہیں، جب کسی قیدی میں شدید علامات ظاہر ہوتی ہیں، تبھی ٹیسٹ کیا جاتا ہے اور یہ بات خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوین قید خانے میں موجود خواتین کا بیرونی دنیا سے رابطہ بہت کم ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ جیل کے کسی عملے کے رکن کو انفیکشن ہوا ہوگا۔ جب تک جیل انتظامیہ ہمارے خاندان کے اراکین کو بچانے کے لیے ضروری اقدامات نہیں اٹھاتی، تب تک انہیں آزاد کر دینا چاہیے کیونکہ ہم گھروں میں اپنے پیاروں کا خود تحفظ کر سکتے ہیں۔”
مریم نے کہا کہ خاندانوں کے جیل حکام سے تین مطالبات ہیں: پہلا یہ کہ جیل میں موجود ہر قیدی کا ٹیسٹ کیا جائے، دوسرا جیل کے عملے کو اپنی حفظان صحت پر لازماً عمل کرنا چاہیے، وہ ماسک پہنیں، قید خانے کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے disinfection کریں، اور تیسرا کہ 60 سال سے زیادہ عمر کے قیدیوں کو عارضی طور پر رہا کر دیا جائے تاکہ ان کے اہل خانہ گھروں پر ان کا خیال رکھ سکیں۔”
تین مہینے پہلے اوین جیل کے وارڈ 8 کے مرد قیدیوں نے ایک مشترکہ بیان میں عدالت پر زور دیا تھا کہ وہ اس صورت حال میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔
جواب دیں