پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکٹر کو مردوں کا شعبہ سمجھا جاتا ہے اور اگر خواتین اس کیریئر کا انتخاب کرتی ہیں تو انہیں اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔ جو خواتین اتنی جرات مند ہوتی ہیں اور یہ قدم اٹھاتی ہیں، ان کو دہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے – ایک وسائل کی کمی اور دوسرا نمائندگی کا فقدان۔
اقصیٰ کوثر اُن چار خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں پاکستان میں گوگل ڈیولپرز ایکسپرٹ (GDE) کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ وہ ان مشکلات کو یاد کرتی ہیں کہ جن کا انہیں کیریئر کے آغاز میں سامنا کرنا پڑا تھا۔ "میری دلچسپی مشین لرننگ میں تھی۔ تب اس کے بہت زیادہ وسائل موجود نہیں تھے، اس لیے مجھے بہت زیادہ آن لائن لرننگ کرنا پڑی۔ اپنے بل بوتے پر خود سے سیکھنا بلاشبہ ایک چیلنج تھا کیونکہ کسی جگہ پھنسنے کی صورت میں سمجھانے والے بہت زیادہ لوگ نہیں تھے۔ جب میں نے پروگرام کے لیے اپلائی کیا تھا تو پاکستان میں کوئی خاتون GDE نہیں تھی اور مشین لرننگ میں تو سرے سے کوئی GDE تھی ہی نہیں۔”
سکینہ عباس Flutter میں مہارت رکھتی ہیں، اب بھی اپنے اِس سفر کو یاد کر کے پر جوش ہو جاتی ہیں، کہتی ہیں کہ اگر آپ کے اندر جذبہ موجود ہے تو کسی بھی شعبے میں آپ کو کوئی چیز چیلنج نہیں لگتی۔
بلاشبہ یہ تھکا دینے والا سفر تھا اور ہر مشکل کے سامنے ڈٹے رہنا مشکل تھا، لیکن ہر چیلنج آپ کو تقویت دیتا ہے اور آپ کو بہتر سے بہترین بناتا ہے۔
سکینہ حکومت پر زور دیتی ہیں کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرے۔ تربیت کی فراہمی کے علاوہ دیہی علاقوں سے آنے والی خواتین کے لیے مناسب رہائشی سہولیات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔
حکومت کو ایسے اقدامات اٹھانے چاہئیں جو خواتین کے لیے آسانیاں پیدا کریں مثلاً بڑے شہروں میں آنے والی خواتین کے لیے رہائشی سہولیات کی فراہمی
اس کے علاوہ حکومت کو STEM یعنی سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں میں یونیورسٹی طالبات کی انٹریپرینیورشپ کی بھی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، اس کے علاوہ STEM انٹریپرینیورشپ میں کام کرنے والے نجی اداروں کے ساتھ شراکت داریاں کرنی چاہئیں اور NICs (نیشنل انکیوبیشن سینٹرز) کی گنجائش کو بہتر بنانا چاہیے تاکہ آئی ٹی وینچرز کو انکیوبیٹ کیا جا سکے۔”
مستقبل کے اہداف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سکینہ نے کہا کہ "تعلیمی زندگی اور ٹیک انڈسٹری میں بہت فرق ہے، جس کا خلا ہم اپنے ساتھیوں کی مدد سے خصوصی طور پر یونیورسٹی کے طلبہ کے لیے ترتیب دی گئی ٹیکنیکل ورکشاپس اور ایونٹس کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جنہیں بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ گریجویشن کے بعد کس شعبے کا رخ کرنا ہے۔”
سکینہ عباس، Flutter کے لیے پاکستان کی پہلی گوگل ڈیولپرز ایکسپرٹ
سکینہ کے مطابق تمام تر صلاحیتوں کے باوجود ملک میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہت کم خواتین موجود ہیں۔
مجھے امید ہے کہ خواتین کو ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک ملے گی اور وہ منفی رویہ رکھنے والے افراد کے ایسے جملوں مثلاً "یہ تو لڑکوں کی فیلڈ ہے، لڑکیاں اس میں نہیں چل پاتیں” سے بچتے ہوئے جو آگے بڑھیں گی۔
فائربیس ماہر مریم اسلم نے بتایا کہ "پروگرام کے لیے شارٹ لسٹ ہونے پر میں بہت خوش تھی، کیونکہ یہ میرا خواب تھا جو تکمیل کو پہنچا۔ ایک سال کی محنت رنگ لائی۔ میرے الفاظ اس خوشی کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ میں خوشی سے اچھل رہی تھی اور اپنے گھر والوں کو بتا رہی تھی کہ میں GDE کی حیثیت سے منتخب ہو چکی ہوں۔”
اقصیٰ کے برعکس مریم سمجھتی ہیں کہ حکومت نے ٹیکنالوجی پروگرام میں خواتین کے لیے کچھ ‘زبردست’ اقدامات اٹھائے ہیں۔ البتہ ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ حکومت کو آئی ٹی کے شعبے میں خواتین کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
طالعہ مرزا بھی گزشتہ دو تین سالوں سے ڈیولپرز کے لیے مختلف کمیونٹی میں کام کر چکی ہیں، جہاں ان کے استادوں میں سے ایک نے انہیں گوگل کے GDE پروگرام کے لیے درخواست دینے کو کہا۔
در پیش چیلنجز کے بارے میں طالعہ کا کہنا تھا کہ GDE پروگرام میں درخواست دیتے ہوئے اپنے شعبے کی بہترین معلومات ہونا بہت اہم ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر کسی کے پاس بہترین معلومات اور کمیونٹی کی خدمت کا جذبہ بھی تو ہو تو اس پروگرام کے لیے ضرور درخواست دینی چاہیے۔
طالعہ خواتین کی نمائندگی میں کمی کی وجہ کئی خاندانوں کی جانب سے اپنی بیٹیوں کو کو-ایجوکیشن اداروں میں تعلیم حاصل کرنے اور کیریئر بنانے سے روکنے کو قرار دیتی ہیں۔
بد قسمتی سے ایسے کئی ادارے ہیں جہاں خواتین کو ٹیکنالوجی پروگراموں میں داخلے نہیں دیے جاتے۔ خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت GDE جیسے پروگراموں کے حوالے سے شعور اجاگر کر سکتی ہیں تاکہ یقینی بنایا جائے کہ طلبہ ایک پروفیشنل کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور مزید مہارتیں سیکھیں۔
آئی ٹی سیکٹر میں خواتین کی نمائندگی کے حوالے سے خدشات پر آواز اٹھانے والی طالعہ تنہا نہیں ہیں۔ گو کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں خواتین کی شرکت بڑھانے کے حوالے سے کافی کچھ کیا ہے لیکن ابھی بہت سا سفر باقی ہے۔
گوگل کا GDE پروگرام تقریباً 700 انتہائی تجربہ کار ٹیکنالوجی ماہرین، اثر و رسوخ رکھنے والوں اور رہنماؤں کا عالمی نیٹ ورک ہے، جن میں سے 161 خواتین ہیں۔ اس میں گیارہ پاکستانی بھی شامل ہیں کہ جن میں سے چار خواتین ہیں۔
گوگل کا کہنا ہے کہ وہ ان خواتین رہنماؤں کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ زیادہ خواتین رہنماؤں کی موجودگی کا مطلب ہے نو عمر خواتین اور لڑکیوں کے لیے مزید رول ماڈلز کی آمد، جو صنفی مساوات کے لیے ضروری ہے۔ کمپنی نے خواتین کے لیے ایک گلوبل ایمپلائی نیٹ ورک بھی بنایا ہے جسے ‘Women@Global’ کہتے ہیں، جہاں رہنمائی کے مواقع کے علاوہ خواتین کو آگے بڑھنے اور دنیا کے دوسرے حصوں کی خواتین سے منسلک ہونے کا موقع ملتا ہے۔
جواب دیں