کرشما علی نے 2016ء میں ایک تاریخ رقم کی جب انہیں دبئی میں ہونے والے جوبلی گیمز میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا گیا۔
وہ تب 19 سال کی تھیں اور اپنے آبائی علاقے چترال سے کسی بھی بڑے اسپورٹس ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والی پہلی لڑکی بنی تھیں۔ 9 سال کی عمر سے فٹ بال کھیلنے کی شوقین کرشما نے ہائی اسکول کی تعلیم اسلام آباد میں حاصل کی تھی اور یہیں پر ان کا کیریئر بھی پروان چڑھا، اس لیے کیونکہ یہ شہر نسبتاً آزاد خیال ہے۔
انہوں نے دبئی میں چاندی کا تمغا جیتا اور کھیلوں میں خواتین کی شرکت کی حوصلہ افزائی کا جذبہ لیے وطن واپس آئیں۔ جب کرشما نے ایک چھوٹا سا فٹ بال کیمپ لگایا تو انہیں اچھا ردِ عمل ملا کہ جس میں 50 سے زیادہ لڑکیاں آئیں۔
لیکن ان کی اس جدوجہد کی ایک قیمت تھی۔ ضلع چترال پاکستان کے شمال کا دُور افتادہ ضلع ہے کہ جو اپنی خوبصورت وادیوں کی وجہ سے مشہور ہے لیکن انتہائی قدامت پسند علاقہ ہے اور یہی وجہ ہےکہ انہیں آن لائن دھونس دھمکیوں اور تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ اب 24 سال کی کرشما کہتی ہیں کہ مجھے صرف 18 سال کی عمر میں بدترین نفرت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑا، یہاں تک کہ میں راتوں کو رو رو کر سوتی تھی۔
لیکن اس صورت حال سے متاثر ہوئے بغیر انہوں نے چترال ویمنز اسپورٹس کلب کی بنیاد رکھی، جو نہ صرف فٹ بال بلکہ والی بال، کرکٹ بلکہ اسکی انگ تنگ کی تربیت دیتا ہے اور اب اس کی 200 سے زیادہ اراکین ہیں، جن کی عمریں 8 سے 16 سال ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں انہوں نے کلب کی 37 اراکین کے لیے اسلام آباد میں ایک فٹ بال کیمپ کا انعقاد کیا، جہاں انہیں پروفیشنل کوچنگ دی گئی۔ بتاتی ہیں کہ “وہ اونچی اونچی عمارتیں اور خواتین کو ڈرائیونگ کرتا دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ میدان میں ان کا اعتماد متاثر کن تھا۔”
کرشما کی اپنی ٹیم ہائی لینڈرز فٹ بال کلب ہے، جس نے رواں سال نیشنل ویمنز فٹ بال چیمپئن شپ میں حصہ لیا تھا اور کوارٹر فائنل تک پہنچی۔ لیکن عین اسی وقت فیفا نے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کی رکنیت معطل کر دی اور یوں ٹورنامنٹ منسوخ ہو گیا۔
کرشما کی اسپورٹس اکیڈمی کے ساتھ ایک کرافٹ سینٹر ہے بھی چترال کی خواتین کی دست کاری کو ملکی اور عالمی سطح پر لے جانے میں مدد دیتا ہے۔ وہ فیشن ڈیزائنرز کے تعاون سے ایسی ان خواتین کو آمدنی کے ذرائع فراہم کرتا ہے۔ 2019ء میں ان کی دست کاری میلان فیشن ویک کے دوران اطالوی ادارے اسٹیلا جین کے ملبوسات پر پیش کی گئی۔ اسی سال کرشما فوربس کی ‘30 انڈر 30’ کی فہرست میں شامل ہوئیں۔
وہ اب یونیورسٹی آف لندن، اسلام آباد سے بزنس اینڈ مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کر چکی ہیں، وہ چترال میں اسپورٹس انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
اب میں ان لڑکیوں کے لیے ایک اسٹیڈیم بنانا چاہتی ہوں اور اپنے اسپورٹس کلب کو پاکستان کی دوسری وادیوں تک لے جانا چاہتی ہوں۔ تبدیلی رات بھر میں نہیں آ جاتی، لیکن فٹ بال ہمارے لیے ایک کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے، یہ مقامی آبادی میں مثبت تبدیلی کا ایک ذریعہ ہے۔
جواب دیں