سائرہ جاوید کا بوتیک ہمالیہ کے دامن میں واقع مقبوضہ کشمیر کے خوبصورت علاقے کپواڑہ کے ایک بازار کی بند گلی میں واقع ہے۔ یہ جگہ بالکل ان کی زندگی کی طرح ہے، یعنی بند گلی کہ جس میں آگے جانے کا راستہ بند ہے۔
میں اپنی جائیداد چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں اپنے شوہر کو چھوڑنے کو تیار ہوں۔ میں اس جہنم میں زندگی نہیں گزار سکتی۔ میں پاکستان واپس جانا چاہتی ہوں۔
43 سالہ سائرہ نے کہا کہ جن کا تعلق دراصل پاکستان کے ساحلی شہر کراچی سے ہے۔
لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ وہ واپس نہیں جا سکتیں۔
جموں و کشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے جس پر بھارت نے 74 سال سے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور چند سال پہلے اس کی نیم خود مختارانہ ریاستی حیثیت کا بھی خاتمہ کر کے اسے براہِ راست وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ بنا دیا گیا۔ یوں دہائیوں کی غلامی کے باوجود حالات مزید کٹھن ہو گئے۔
کشمیر کو لائن آف کنٹرول دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، جس کے ایک طرف پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کا علاقہ ہے تو دوسری جانب بھارت کے قبضے میں موجود مقبوضہ کشمیر۔ ان دونوں کے درمیان واقع اس سرحد کو عبور کرنا مشکل ہے کیونکہ اس کا انحصار دونوں حکومتوں کے مزاج پر ہے۔
ماضی میں حالات مختلف تھے اور یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں ایسے کشمیری جوڑے ہیں کہ جن کی شادی لائن آف کنٹرول کے آر پار ہوئی ہے۔ سائرہ بھی انہی میں سے ایک ہیں، جو بتاتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں تقریباً 350 ایسی پاکستانی خواتین ہیں جن کی شادیاں مقبوضہ وادی میں ہوئیں اور اب وہ اپنے گھر اور رشتہ داروں کے پاس واپس تک نہیں جا سکتیں۔ وہ واٹس ایپ کے ذریعے ایسی خواتین کے مظاہروں کو منظم کرتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں پھنس جانے والی ایسی پاکستانی خواتین کے لیے کوئی قانونی راستہ نکال سکیں۔
ان میں سے زیادہ تر خواتین 90ء کی دہائی میں پاکستان آنے والے کشمیریوں سے بیاہی گئیں، کہ جب لائن آف کنٹرول پر اتنی سختی نہیں تھی۔ انہوں نے پاکستان میں بہت اچھی زندگی گزاری لیکن جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوئی اور بھارتی حکومت نے ان تمام کشمیریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر دیا کہ جو غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے پاکستان چلے گئے تھے تو ان کی زندگی میں بھونچال آ گیا۔ کئی کشمیری اپنی بیویوں کے ساتھ مقبوضہ وادی میں واپس آ گئے کہ جن کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھے اور اس کے بعد سے وہ بھی پوری وادئ کشمیر کی طرح قید ہو گئیں۔
لیکن سائرہ کا معاملہ ذرا مختلف تھا۔ وہ 2007ء میں اپنے سسرالیوں سے پہلی بار ملاقات اور انہیں ان کے دو بچے دکھانے کے لیے مقبوضہ کشمیر گئی تھیں۔ ان کا ویزا ایک مہینے کا تھا اور بعد میں انہیں پتہ چلا کہ سسرال نے ان کا پاسپورٹ پھینک دیا ہے۔ "وہ چاہتے تھے کہ میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہوں۔”
یوں سائرہ، ان کے شوہر اور ان کے بچے سفری دستاویزات سے محروم ہو گئے اور ایک ماہ بعد انہیں بھارت میں غیر قانونی طور پر رہنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ چند ماہ بعد انہیں ضمانت پر رہا تو کر دیا گیا لیکن سائرہ کا معاملہ آٹھ سال تک چلتا رہا، تب جا کر انہیں بری کیا گیا۔ اب انہیں صرف ایک بھارتی پاسپورٹ کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر وہ کراچی میں اپنے خاندان کے پاس جا سکیں، لیکن انہیں پاسپورٹ جاری نہیں کیا جا رہا۔
کشمیر کی سینٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ شوکت کہتے ہیں کہ
شادی شدہ خواتین کی قومیت کے حوالے سے بین الاقوامی کنونشن کے تحت بھارت پر لازم ہے کہ کشمیری مردوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین کو پاسپورٹ جاری کرے۔ ایسی خواتین کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے شوہر کی بنیاد پر شہریت پائیں۔
90ء کی دہائی میں کشمیر کی آزادی کی مسلح جدوجہد کے دوران ہزاروں کشمیری پاکستان آئے تھے اور سینکڑوں نے یہاں پاکستانی کشمیری خواتین سے شادیاں کیں لیکن کیونکہ ان کے شوہر انہیں مکمل دستاویزات کے ساتھ مقبوضہ وادی نہیں لائے، اس لیے اب وہ پھنس گئی ہیں۔
2008ء میں نصرت بیگم کا پاسپورٹ تب اچانک غائب ہو گیا تھا کہ جب وہ اپنی شادی کے چند ماہ بعد سسرال سے ملنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں تھیں۔ اس صورت حال میں وہ چاہتی تھیں کہ بھارتی حکومت انہیں ملک بدر کر دے، لیکن اس نے ایسا بھی نہیں کیا۔ چند سال بعد ان کے شوہر نے دوسری شادی کر لی اور انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی دو بیٹیوں کو خود پالا پوسا اور اب 33 سالہ نصرت ہر قیمت پر آزاد کشمیر میں اپنے آبائی شہر مظفر آباد جانا چاہتی ہیں۔
2010ء میں مقبوضہ کشمیر کی بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے لیے ایک بحالی پروگرام کا اعلان کیا تھا جس کے تحت لائن آف کنٹرول پار کر کے پاکستان جانے والے افراد کو آنے کی اجازت دی گئی۔ اس پالیسی میں ایسے کشمیریوں اور ان کی بیویوں کو خصوصی اجازت ناموں کے تحت مخصوص راستوں سے وادی میں واپس آنے دیا گیا لیکن اس حوالے سے جو قوانین تھے وہ مبہم تھے۔ اس پالیسی کے تحت نصرت بیگم کی امیدیں جاگیں، انہوں نے کئی سرکاری دفاتر کے چکر کاٹے کہ انہیں مظفر آباد کا سفر کرنے کی اجازت دی جائے، لیکن انکار کر دیا گیا۔ "وہ مجھے بے دخل نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں بتاتے اور پاکستانی حکام بھی میری مدد نہیں کر سکتے۔” انہوں نے کہا۔
وہ اب بھی پاکستان واپس آنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور انہیں اب سائرہ کے واٹس ایپ گروپ میں اپنے جیسی کئی خواتین مل گئی ہیں ، جیسا کہ بشریٰ فاروق۔ 30 سالہ بشریٰ نے بھی ایک ایسے کشمیری سے شادی کی تھی کہ جس کا تعلق مقبوضہ وادی سے تھا۔ 2012ء میں وہ اس نئی پالیسی کے جھانسے میں آ گئے اور دونوں لائن آف کنٹرول پار کر گئے مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ وہ کہتی ہیں کہ
جس دن اس پالیسی کا اعلان ہوا، اس دن سے میری زندگی جہنم بن گئی۔ مجھے بلیک میل کیا گیا، میرے شوہر نے دھمکایا کہ وہ میرا ایک بچہ لے کر مجھے چھوڑ کر مقبوضہ کشمیر چلا جائے گا۔
سینکڑوں پاکستانی خواتین کی طرح بشریٰ کو بھی پاکستان واپس نہیں آنے دیا جا رہا کیونکہ ان کے شوہر نے ان کا پاسپورٹ ضائع کر دیا تھا۔ شادی بھی ناکام ہوئی اور 2019ء میں طلاق پر منتج ہوئی۔ بتاتی ہیں کہ وہ مجھ سے لڑتا جھگڑتا رہتا اور مارتا پیٹتا بھی تھا۔
پرویز امروز ایسی پاکستانی خواتین کے وکیل ہیں، جو اسے ایک "انسانی مسئلہ” قرار دیتے ہیں۔
ان خواتین نے بھارتی حکومت کے کہنے پر یقین کیا، لیکن ان کے ساتھ کیا گیا وعدہ کبھی پورا نہیں کیا گیا۔ انہیں یہاں آنے پر افسوس ہے۔
بشریٰ کہتی ہیں کہ وہ اور ان جیسی دوسری پاکستانی خواتین اب مستقل ذہنی تناؤ کی شکار ہیں۔ چند خواتین کو گھریلو تشدد کا بھی سامنا ہے اور وہ بغیر گولیاں کھائے سو بھی نہیں سکتیں۔
Pingback: مقبوضہ کشمیر میں پھنسی پاکستانی خواتین کے لیے امید کی کوئی کرن نہیں - دی بلائنڈ سائڈ
Pingback: بھارت، پاکستان کے جیتنے پر خوشی منانے والی خاتون ٹیچر ملازمت سے نکال دی گئیں - دی بلائنڈ سائڈ