ایک نوجوان جوڑے کو ہراساں کرنے اور ان پر جنسی حملے کے مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کر دی گئی ہے۔
عثمان وار اس کے ساتھیوں فرحان، مدرس اور عطا الرحمٰن کو مزید چار روز کے لیے پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ تفتیش کے معاملات مکمل ہو سکیں کیونکہ تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع ہو چکا ہے۔
ملزمان پر اب ریپ اور بھتہ خوری کے اضافی الزامات بھی لگ چکے ہیں جبکہ جوڑے نے اپنے بیانات بھی دے دیے ہیں۔ تعزیرات پاکستان کی دفعات 375، 384 ، 342 ، 114 ، 395 ، 496-اے اور 377-بی کے تحت ان پر ریپ کرنے، بھتہ خوری، حبسِ بے جا، اعانتِ جرم اور دیگر جرائم کے الزامات ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان نے خاتون کو بلیک میل کر کے 13 لاکھ روپے بھی حاصل کیے ہیں۔
وائرل وڈیو میں میں دیکھا گیا تھا کہ مرکزی ملزم عثمان مرزا نے ایک جوڑے کو ڈرا دھمکا کر اور اسلحے کے زور پر انہیں بے لباس کیا اور ان کے ساتھ نازیبا حرکات کیں۔
پولیس کی تحقیقات کے دوران پتہ چلا ہے کہ یہ وڈیو تین افراد نے بنائی تھی، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے کی ہے اور اس موقع پر 14 افراد موجود تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ واقعہ تقریباً چھ ماہ پرانا ہے اور معاملہ تب سامنے آیا جب اس کی وڈیو منظرِ عام پر آئی۔ کیونکہ اب اس مقدمے میں دفعہ 375 بھی شامل ہو چکی ہے، جو ریپ کے حوالے سے ہے تو ملزمان کو سزائے موت یا عمر قید بھی ہو سکتی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق یہ واقعہ گولڑہ پولیس اسٹیشن کی حدود میں سیکٹر ای-11 کے ایک اپارٹمنٹ میں پیش آیا تھا۔
اس وڈیو کے سامنے آنے کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر پیدا ہوئی اور #ArrestUsmanMirza کا ٹرینڈ کئی روز تک ٹوئٹر پر سر فہرست رہا۔
قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں نے اس وڈیو کے سامنے آتے ہی چند گھنٹوں میں مذکورہ ملزم اور بعد ازاں اس کے ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔
اس دوران سوشل میڈیا پر عثمان مرزا کی شناخت بھی واضح ہو گئی جس کے بارے میں پتہ چلا ہے کہ وہ اسلام آباد کے ایک شو روم آٹو لینڈ کا مالک ہے اور نئی اور پرانی گاڑیوں کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ریئل اسٹیٹ اور رینٹ اے کار کے شعبے سے بھی وابستہ ہے۔
جواب دیں