مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے شاہد نذیر بھٹ کو 2 جولائی کو ضمانت پر رہا کیا گیا۔ جیل سے باہر نکلنے کے بعد ان کی ایک ہی خواہش تھی، اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز۔ لیکن راستے میں جیسے ہی انہوں نے اپنا موبائل فون کھولا تو وہ ان کی اہلیہ من میت کور کی کسی دوسرے شخص کے ساتھ شادی کی تصویروں سے بھرا پڑا تھا، جو سکھ تھا، من میت کے خاندان کی طرح۔ شاہد کا دل ڈوب گیا اور دماغ سُن ہو گیا۔
اب شاہد ایک بہت بڑے تنازع کی زد میں ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے تو دماغ میں یہی آیا کہ خود کشی کر لیتا ہوں۔ لیکن اب سوچ لیا ہے کہ اپنی بیوی کی واپسی کی جدوجہد کروں گا اور آخر تک لڑوں گا۔
ٹرانسپورٹ کا کام کرنے والے 29 سالہ شاہد اور من میت کی محبت چھ سال پرانی تھی۔ دونوں نے گزشتہ ماہ 5 جون کو والدین سے چھپ کر شادی کر لی تھی۔ من میت کا تعلق سکھ مذہب سے تھا لیکن انہوں نے اسلام قبول کیا اور ان کا نام زویا رکھا گیا۔
من میت کی عمر کے حوالے سے چند شبہات ہیں، مثلاً شناختی کارڈ کے مطابق وہ فروری 2003ء میں پیدا ہوئیں، یعنی ان کی عمر 18 سال ہے لیکن شاہد کہتے ہیں کہ من میت کی اصل عمر 22 سال ہے اور ان کے خاندان کو چیلنج کرتے ہیں کہ اصل عمر پتہ چلانے کے لیے بون ڈینسٹی ٹیسٹ کروائیں۔
شاہد کو 23 جون کو پولیس نے گرفتار کیا۔ ان پر اغوا اور شادی کے لیے جبری تبدیلی مذہب کے الزامات تھے، جو من میت کے والد نے 21 جون کو دائر کیے گئے مقدمے میں لگائے تھے۔
مقبوضہ کشمیر میں سکھ بہت چھوٹی سی اقلیت ہیں اور کُل آبادی کا دو فیصد بھی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شاہد اور من میت کے معاملے نے وادی میں زبردست ہلچل پیدا کی ہے۔ خاص طور پر پنجاب اور دہلی کے سکھوں کا ردِ عمل بہت زیادہ تھا۔ پنجاب کی شیرومنی اکالی دل سمیت کئی سکھ جتھوں نے کہا کہ محبت کے نام پر سکھ خواتین کا مذہب جبراً تبدیل کیا جا رہا ہے اور انہوں نے اس کے لیے "لو جہاد” کی وہی اصطلاح استعمال کی جو اب تک انتہا پسند ہندوں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے آ رہے ہیں۔ شاہد کہتے ہیں کہ وادی میں پہلے کبھی اس کا نام تک نہیں سنا گیا۔
البتہ تمام سکھ ایسے الزامات نہیں لگاتے۔ چند حلقوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں اس طرح کی باتیں دراصل ایک مخصوص سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کی جا رہی ہیں اور شاہد اور من میت کا واحد قصور محبت ہے۔
شاہد خود پر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ قانونی جنگ لڑیں گے۔ اپنی بے گناہی کے ثبوت میں وہ نکاح نامہ پیش کرتے ہیں جس پر 5 جون کی تاریخ درج ہے۔ 22 جون کو دونوں بارہ مولا کی عدالت میں گئے اور اپنی شادی رجسٹر کروانے کے لیے حلف نامہ جمع کروایا تھا۔ شاہد کہتے ہیں کہ
انہوں نے مجھ سے میری محبت چھینی ہے جو قانوناً میری بیوی ہے، وہ بھی اس وقت جب میں جیل میں تھا۔ کوئی اس طرح کیسے کر سکتا ہے؟ جب میں نے من میت کی دوسری شادی کی تصویریں دیکھیں تو دل ہی بجھ گیا۔ مجھے خود پر بہت غصہ آیا اور بہت بے بس محسوس کیا۔ میرا اس سے نکاح ہوا تھا۔ من میت نے عدالت کے روبرو بیان بھی دیا کہ وہ اپنی مرضی سے مجھ سے شادی کر رہی ہے۔ لیکن اب میں یہاں پڑا ہوا ہوں، بے بس اور بے یار و مددگار اور وہ مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہے۔ اس دھوکا دیا گیا ہے۔ کیا یہی انصاف ہے؟
شاہد کی گرفتاری کے بعد من میت نے 26 جون کو عدالت کے روبرو بیان دیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور شاہد سے شادی کی ہے۔ پولیس بھی اس بیان کی تصدیق کرتی ہے۔ لیکن جس وقت یہ بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا، اس وقت عدالت کے باہر درجنوں سکھ موجود تھے، جو من میت کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ من میت نے پولیس پروٹیکشن بھی مانگی تھی، لیکن عدالت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔
شاہد نے بتایا کہ من میت نے عدالت میں بیان دیا کہ انہوں نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ پھر جج نے میرے والد کو کہا، جو اُس وقت عدالت میں موجود تھے کہ وہ انہیں اپنے گھر لے جائیں۔ لیکن من میت کے والدین انہیں زبردستی اپنے ساتھ لے گئے اور ان کی شادی کروا دی۔ ہمارے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے۔
من میت کی دوسری شادی 29 جون کو پلوامہ کے ایک گردوارے میں ایک سکھ سے کروائی گئی۔ جس کے بعد انہیں دہلی منتقل کر دیا گیا۔
شاہد کہتے ہیں کہ من میت اب بھی قانوناً میری بیوی ہیں، ان کی دوسری شادی غیر قانونی ہے۔
البتہ پولیس کہتی ہے کہ ابھی ان کی شادی کی دستاویزات کی تصدیق ہوگی اور شاہد بھی ضمانت پر رہا ہیں، ان پر مقدمات ابھی ختم نہیں ہوئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ من میت کے والدین کے خلاف کار روائی نہیں کر سکتے ، جب تک کہ شاہد با ضابطہ طور پر ان کے خلاف پرچا نہ کٹوائے۔ جبکہ شاہد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیوی واپس لینے کے لیے عدالت کا رخ کریں گے۔ "میں اپنے وکیل سے بات کر رہا ہوں اور عدالت میں درخواست دائر کرواؤں گا کہ من میت کا بیان ریکارڈ کروایا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ کیا میں نے اسے مذہب تبدیل کرنے یا شادی کرنے پر مجبور کیا تھا؟ وہ پہلے بھی مجسٹریٹ کے سامنے ایک بیان دے چکی ہے، جس کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی دوسری شادی کو غیر قانونی قرار دینا چاہیے۔”
دہلی کے وکیل محمود پراچہ کہتے ہیں کہ نکاح نامہ شادی کا قانونی ثبوت ہے، اسے شہادت کے طور پر عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ رجسٹریشن محض اس کی تصدیق ہے، قانوناً اتنی ضروری نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ شاہد کے پاس راستہ موجود ہے کہ وہ عدالت میں درخواست دائر کرے جس کے بعد عدالت اس سے بیان کے لیے حاضری دینے کا کہہ سکتی ہے۔ اگر من میت کہہ دے کہ اس نے اپنی مرضی سے شاہد سے شادی کی ہے اور اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو اس کی دوسری شادی غیر قانونی ہو جائے گی۔
شاہد نے کہا کہ لوگ اس معاملے پر سیاسی فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ کشمیر میں پہلے کبھی ‘لو جہاد’ کا نام بھی نہیں سنا گیا۔ من میت کے والد ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ اس کی بدولت وہ ہم دونوں کو الگ کر سکتے ہیں۔ "میں نے کبھی اسے مذہب تبدیل کرنے کو نہیں کہا۔ اس نے ایسا اپنی مرضی سے کیا۔ اگر میں اس سے گن پوائنٹ پر ایسا کرواتا تو کیا وہ میرے ساتھ اپنا گھر چھوڑتی؟ ”
دوسری شادی کی تصویروں کے حوالے سے شاہد نے کہا کہ
ان تصویریں میں من میت کی آنکھوں میں سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے۔ میں ان کی تکلیف کو سمجھ سکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے وہ بے وفا نہیں، وہ مجھے کبھی دھوکا نہیں دیں گی۔ وہ بے بس ہیں، انہیں اسیر بنا لیا گیا ہے۔ دراصل من میت کو گن پوائنٹ پر میں نے نہیں رکھا، انہوں نے رکھا ہے اور زبردستی شادی کروائی ہے۔ من میت کی زندگی کو برباد انہوں نے کیا ہے۔
شاہد کہتے ہیں کہ "میں نے یہ بھی سوچا کہ دہلی چلا جاتا ہوں، لیکن اب یہ معاملہ اتنا سیاست زدہ ہو چکا ہے کہ مجھے معلوم ہے کہ وہاں پہنچتے ہی مجھے مار دیا جائے گا۔ لیکن میں ہمت نہیں ہاروں گا، من میت کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ چاہے مجھے سالوں لگ جائیں، لیکن میں قانونی جنگ لڑوں گا، وہ میری بیوی ہے، میری محبت ہے اور میں اسے حاصل کر کے رہوں گا۔”
جواب دیں