دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی 2020ء کے اوائل میں کرونا وائرس کی وبا سے بُری طرح متاثر ہوا۔ حکومت نے ملک کے بیشتر علاقوں میں سخت لاک ڈاؤن لگائے۔ سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے اور تجارتی مراکز بند کرنے کے علاوہ سماجی اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی۔
جیسے جیسے کورونا وائرس کے شکار بڑھتے رہے، وبا کے لوگوں کی ذہنی صحت پر بھی اثرات مرتب ہونے لگے۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں پر۔ انہی میں سے ایک کلثوم (فرضی نام) تھیں۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والی کلثوم کو وبا سے پہلے ہی کئی مشکلات کا سامنا تھا۔ اچانک اسکول بند ہو جانے کی وجہ سے انہیں اپنا زیادہ تر وقت گھر میں ہی گزارنا پڑا۔ جہاں انہیں اپنی سوتیلی ماں کے ہاتھوں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
کلثوم کی والدہ تب انتقال کرگئی تھیں جب ان کی عمر صرف 8 سال تھی۔ کیونکہ کلثوم واحد اولاد تھیں، اس لیے انہیں اپنی تعلیم جاری رکھنے کے علاوہ کم عمری میں ہی گھریلو ذمہ داریاں بھی انجام دینا پڑتیں۔ چند سال بعد کلثوم کے والد افتخار نے یہ سوچ کر شادی کر لی کہ ان کی بیٹی کو ایک ماں کی ضرورت ہے۔ کلثوم کو گھریلو ذمہ داریوں سے چھٹکارا ملا تو وہ بھی خوش ہوگئیں۔ بتاتی ہیں کہ
"میں نئی ماں شگفتہ کی آمد پر خوش تھی کہ اب مجھے گھر کے کام نہیں کرنا پڑیں گے اور پوری توجہ تعلیم پر دوں گی۔”
ایک سال بعد شگفتہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔ جیسے ہی ان کی توجہ نومولود بچی کی جانب منتقل ہوئی۔ کلثوم کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہونے لگے۔ کلثوم بتاتی ہیں کہ
پھر اچانک اُن کے رویّے میں تبدیلی آ گئی اور وہ بد سے بد تر ہوتا چلا گیا۔ انہوں نے تمام گھریلو کاموں کی ذمہ داری میرے سر پر ڈال دی اور غلط زبان تک استعمال کرنے لگیں۔ کبھی کبھی تو ڈنڈے یا جوتی سے میری پٹائی بھی کر دیتیں۔ جب میں ابو سے شکایت کرتی تو وہ نظر انداز کرتے کہ گویا میں جھوٹ بول رہی ہوں۔ میں خود کو تنہا، بے یار و مددگار اور پریشان محسوس کرتی۔ میری تعلیمی کارکردگی بھی متاثر ہونے لگی۔”
کلثوم اور شگفتہ کے تعلقات خراب ہوتے دیکھ کر افتخار پریشان ہو گئے۔ تب ان کے ایک دوست نے انہیں یونیسیف کے اس پراجیکٹ کے بارے میں بتایا جو بلوچستان میں خواتین اور بچوں کو نفسیاتی و سماجی سپورٹ سروسز فراہم کرتا ہے۔ جیسے ہی کووِڈ-19 کی پہلی لہر کے اثرات کم ہوئے۔ یونیسیف نے صوبائی حکومت اور دیگر شراکت داروں کو خواتین اور بچوں کے لیے اہم خدمات کے دوبارہ شروع کرنے میں مدد دی۔ ان میں سے ایک منصوبہ وبا سے متاثرہ خاندانوں اور برادریوں کو ابتدائی طبی امداد اور نفسیاتی مدد فراہم کرنے کا بھی تھا۔
مینٹل ہیلتھ اینڈ سائیکوسوشل سپورٹ پروجیکٹ (MHPSS) نامی یہ منصوبہ برطانیہ کی وزارتِ خارجہ، دولت مشترکہ و ترقیات کے فنڈز سے چلتا ہے۔ جس کے لیے یونیسیف ایک سوِل سوسائٹی آرگنائزیشن ‘ڈرگز اینڈ نارکوٹکس ایجوکیشنل سروز فار ہیومینٹی’ (دانش) کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ افتخار نے اسی ‘دانش’ سے ہی رابطہ کیا اور یوں کلثوم کا رابطہ ماہرِ نفسیات سعدیہ اشفاق سے ہوا۔
سعدیہ بتاتی ہیں کہ
کلثوم کے ساتھ میری پہلی ملاقات کچھ خاص نہیں تھی۔ وہ مستقل رو رہی تھی، نظریں نہیں ملا رہی تھی اور مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ چند ملاقاتوں میں اسے قائل کرنے کے بعد کہ میں اس کی دوست ہوں۔ اس نے زبان کھولی اور سوتیلی ماں کے حوالے سے مسائل کے بارے میں بات شروع کی۔
کلثوم کی باتیں سننے کے بعد سعدیہ اشفاق نے اُن گھر کا دورہ کیا اور افتخار، شگفتہ اور کلثوم کے ساتھ ایک فیملی سیشن کیا۔ انہوں نے شگفتہ سے تنہائی میں بھی بات کی تاکہ اس معاملے کا دوسرا رخ بھی دیکھا جائے۔
مجموعی طور پر کلثوم کے ساتھ سعدیہ کی آٹھ ملاقاتیں ہوئیں۔ جن میں سے کچھ میں شگفتہ نے بھی شرکت کی۔ سعدیہ نے خاندان کے ہر رکن کے ساتھ اس کی عمر اور شخصیت کے لحاظ سے مختلف طریقے استعمال کیے۔
"کلثوم کو آرٹ پسند ہے اور وہ ڈرائنگ کے ذریعے اپنے احساسات بیان کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اس کے لیے ڈرائنگ تھراپی کا استعمال کیا،”
سعدیہ نے بتایا۔
سعدیہ نے شگفتہ کو بتایا کہ اگر وہ چاہتی ہیں کہ کلثوم اُن کے ساتھ گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹائے تو انہیں یہ کام مل جل کر کرنا ہوگا۔ کلثوم کے ساتھ ایک پارٹنر والا رویہ برتیں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں۔ مرحلہ وار اُن کے تعلقات میں بہتری آنا شروع ہو گئی۔ افتخار کہتے ہیں کہ اب اُن کی بیوی اور بیٹی مل جل کر رہ رہی ہیں۔
اس کامیاب تجربے کے بعد افتخار نے ایک نیا کیس بھی دانش کے حوالے کیا۔ جس میں ایک نو عمر لڑکی کو رشتہ داروں کے ہاتھوں گھریلو تشدد کا سامنا تھا۔ انہوں نے سعدیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے میں بھی مدد دیں۔
اب تک تقریباً 22,000 افراد MHPSS پراجیکٹ سے براہ راست مستفید ہو چکے ہیں، جن میں 6 ہزار سے زیادہ خواتین، 5 ہزار لڑکیاں اور 4 ہزار لڑکے اور تقریباً 6 ہزار مرد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ 90 لاکھ افراد اس پراجیکٹ سے بالواسطہ بھی مستفید ہوئے ہیں۔
اس منصوبے کی کامیابی کی ایک وجہ اس کا مختلف شعبوں کے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون کی بنیاد پر کھڑا ہونا ہے۔ ان میں بلوچستان کی صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، محکمہ صحت، محکمہ سماجی بہبوود، انسانی حقوق اور محکمہ خصوصی تعلیم، انسٹیٹیوٹ آف سائیکاٹری اینڈ بہیویریئل سائنس، دانش اور یونیسیف شامل ہیں۔
یہ منصوبہ مظلوم بچوں، نو عمر افراد اور خواتین کو نفسیاتی مدد فراہم کرتا ہے اور بچوں کے استحصال کے معاملات سامنے لاتا ہے کہ جنہیں بعد ازاں صوبے کے متعلقہ چائلڈ پروٹیکشن اداروں کے حوالے کیا جاتا ہے۔
جواب دیں