‏”پاکستان کی متروکہ دلہنیں،” جنہیں برطانوی شوہر چھوڑ کر چلے گئے

ایسے مردوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شکار غریب گھرانے ہیں اور وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے

آزاد کشمیر کی 28 سالہ ثنا حفیظ نے بمشکل 10 ویں جماعت کا امتحان ہی پاس کیا تھا کہ ان کی شادی برطانیہ میں پیدا ہونے والے کزن محمد بلال چوہدری سے طے کر دی گئی۔ گو کہ ثنا اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سرکاری افسر بننا چاہتی تھیں، لیکن برطانیہ جانے کا موقع ملنے پر ان کے دل میں خوشی بھی تھی۔ وہ سمجھی تھیں کہ اس طرح وہ اپنے خاندان کے مالی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیں گی اور انہیں مزید تعلیم اور بہتر ملازمت کا موقع بھی ملے گا۔

لیکن انہیں دھچکا لگا جب منگیتر اور اس کے خاندان نے 12 ویں سے زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔ "میرا تودل ہی ٹوٹ گیا، لیکن پھر بھی برطانیہ جانا اور اپنے خاندان کی مالی مدد کے قابل ہو جانا میرے لیے اطمینان بخش تھا۔” انہوں نے کہا۔

دونوں کی منگنی پانچ سال رہی اور بالآخر اگست 2018ء میں ان کی شادی ہو گئی۔ ثنا کا شوہر شادی کے ایک ہفتہ بعد ہی برطانیہ چلا گیا اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اسے بھی لے جائے گا۔

ثنا آزاد کشمیر کی ان کئی خواتین میں سے ایک ہیں جن کی شادی برطانیہ میں پیدا ہونے والے کسی پاکستانی خاندان کے فرد سے ہوئی، اسی امید پر کہ ان کا مستقبل بہتر ہو جائے گا، لیکن ان میں سے کئی شادیوں کا انجام بہت بُرا ہوا ہے۔

ضلع میر پور کے کئی پاکستانی خاندان برطانیہ میں رہتے ہیں۔ بیشتر 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں برطانیہ ہجرت کر گئے تھے جب منگلا ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے ضلع میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے تھے۔ لیکن بعد ازاں شادیوں، سیاسی پناہ، ورک پرمٹ اور خاندانی تعلقات کی بنیاد پر برطانیہ جانے والے میر پوریوں کی تعداد بڑھتی ہی گئی۔

بہرحال، ثنا بتاتی ہیں کہ بلال کے جانے کے بعد ایک سال تک ہم ایک دوسرے سے فون پر بات کرتے رہے، لیکن پھر 2019ء میں اس کا رویّہ بدلنا شروع ہو گیا۔ "میں جب بھی برطانیہ آنے پر اصرار کرتی تو وہ آپے سے باہر ہو جاتا اور اول فول بکتا۔ بالآخر اُس سال مئی میں اس نے طلاق دینے کا فیصلہ کر لیا،” ثنا نے اپنے آنسو روکتے ہوئے کہا۔

"یہ میرے لیے اور میرے خاندان کے لیے کسی بم دھماکے سے کم نہیں تھا۔ اُس نے میری زندگی کے آٹھ سال ضائع کر دیے۔ گھر والوں نے میری شادی کے لیے قرضہ لیا تھا، اس امید پر کہ میرے برطانیہ منتقل ہونے کے بعد اسے ادا کرنے کی کوئی سبیل نکل آئے گی۔ میں اس دوران مزید تعلیم حاصل کر لیتی، اپنا سرکاری ملازمت کا خواب پورا کر لیتی۔ اب میرے ان سالوں کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟”

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غزالہ حیدر لودھی کہتی ہیں کہ یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ 1990ء کی دہائی سے میں ایسی ہزاروں خواتین کو دیکھ چکی ہیں۔ بس معاشرہ قدامت پسند فطرت رکھتا ہے تو لوگ اپنی آزمائش کے بارے میں کسی سے ذکر نہیں کرتے۔

وکیل افضال احمد خان نے بھی ایسے کئی واقعات دیکھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ

"ایک برٹش پاکستانی نے، جس کا تعلق ضلع بھمبر سے تھا، میری کزن صدف سے شادی کی جو 7 سال تک چلتی رہی۔ وہ چند سال یہاں رہا بھی لیکن ایک بیٹے کی پیدائش کے بعد چھوڑ کر چلا گیا اور بعد میں نہ صرف طلاق دی بلکہ بیٹے کے حصول کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔”

میر پور سے تعلق رکھنے والے سردار ابرار کہتے ہیں کہ ان کے دوست کی بہن کو ایک برٹش پاکستانی نے شادی کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ ان کے کہنے کے مطابق غربت کی وجہ سے لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی برٹش پاکستانیوں سے کر دیتے ہیں بلکہ اس معاملے میں اتنے جلد باز واقع ہوتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں تک کو برطانیہ بھیج دیتے ہیں کیونکہ ہونے والے داماد کے کردار پر ان کی کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ کئی مرد فراڈ نکلتے ہیں۔

نو عمر خواتین کی ایسی شادیوں کی ایک وجہ تو غربت ہے تو دوسری یہ بھی کہ کچھ والدین اپنے خاندانی رشتے ناتے مضبوط کرنے کے لیے بیٹیوں کو ایسے رشتہ داروں سے بیاہ دیتے ہیں۔

غزالہ حیدر کے مطابق زیادہ تر لڑکیوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، جنہیں امید ہوتی ہے کہ اُن کی بیٹی اپنے کسی بھائی کو برطانیہ بُلا لے گی یا خود کام کرے گی اور انہیں پیسے بھیجے گی۔ جو باتیں خواب سی لگتی ہیں، بالآخر ڈراؤنا خواب  ثابت ہوتی ہیں۔

میر پور میں مقامی خواتین سے شادی کرنے والے برٹش پاکستانیوں کی ساکھ بہت خراب ہے۔ غزالہ حیدر دعویٰ کرتی ہیں کہ تقریباً آدھے سے زیادہ پہلے سے شادی شدہ ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ تو ایک ایسا برٹش پاکستانی نکلا جو چھ سے زیادہ شادیاں کر چکا تھا۔ زیادہ تر لوگ 40 سال سے زیادہ کے ہوتے ہیں بلکہ کچھ کی عمریں تو 60 سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔

افضال خان نے کہا کہ

دراصل ان مردوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شکار غریب گھرانے ہیں اور وہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس لیے وہ یہاں شادی کر لیتے ہیں اور کچھ مہینے یا سال گزارتے ہیں یہاں تک کہ بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ وہ بچے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور کچھ ایسے کہ جن میں دونوں کی زندگیاں برباد کر کے انہیں یہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ اسے کھلی بد کاری اور نفسانی خواہشات کی تکمیل نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟

سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کہتے ہیں کہ میرے خیال میں والدین کو اپنی اولاد کی مرضی پوچھنی چاہیے جو برطانیہ میں پیدا ہوتی ہے اور بالکل مختلف سماج اور ماحول میں پلتی بڑھتی ہے۔ ایسی شادیوں کے ٹوٹنے کی وجہ دراصل شادی سے پہلے بیٹے کی رضامندی حاصل نہ کرنا ہوتا ہے۔ لڑکا اور لڑکی کو موقع ملنا چاہیے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کا، ایک دوسرے کو سمجھنے کا تاکہ وہ شادی کا فیصلہ کر سکیں۔

عتیق خان سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو ایسی شادیوں کو روکنے کے لیے قدم اٹھانا ہوگا۔ سرکاری سطح پر کوششیں کی جا سکتی ہیں، لیکن سول سوسائٹی کو اس رجحان کے خاتمے کے لیے عوام میں شعور اجاگر کرنا ہوگا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے