ہنسی کی قیمت: خاتون کامیڈین بننے کے چیلنجز

یہ جولائی 2020ء تھا جب اگریما جوشوا نے حکومت کی ترجیحات پر ایک لطیفہ سنایا۔ اسے قوم پرست ہندوؤں نے شیواجی مہاراج کی توہین سمجھا اور انہیں ریپ اور قتل تک کی دھمکیوں تک کا سامنا کرنا پڑا۔ آج ایک سال گزرنے کے بعد بھی کچھ بدلا ہے؟

کامیڈین پراتیاشا رانا کہتی ہیں کہ کچھ لوگوں کو تو خواتین کو مذاق کرتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے دیکھ کر ہی غصہ آ جاتا ہے۔ "انڈسٹری میں تین سال گزارنے کے بعد آج بھی مجھے اپنے جسمانی خدو خال پر طنز و طعنوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہاتھی، بھینس، موٹی، لو بھئی اب اس کا بھی بوائے فرینڈ ہے، جم جاؤ نا! – ایسے تبصرے تو عام ہیں۔ لیکن سب سے افسوس تب ہوتا ہے جب کہا جاتا ہے کہ خواتین کی حسِ مزاح اتنی اچھی نہیں اور انہیں اس انڈسٹری میں نہیں ہونا چاہیے۔”

ایک اور کامیڈین مرینلا امسونگ کہتی ہیں کہ "خواتین کو اب بھی صرف جسم اور ظاہری صورت پر ہی پرکھا جاتا ہے۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں بالکل ہی مختلف چیزوں پر تنقید اور مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ جب کسی مرد کامیڈین کا لطیفہ اچھا نہیں لگتا تو ان تنقید کا ہدف ان کے لطیفے کو بنایا جاتا ہے جبکہ جب کسی خاتون کامیڈین کے ساتھ ایسا ہوتا ہے تو حاضرین کا نشانہ براہِ راست وہ عورت ہی ہوتی ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ "میں نے کبھی کسی مرد کو نہیں دیکھا کہ "ابے، اتنے بال ہیں تُو بھالو ہے کیا؟” یا "اس داڑھی میں تو بہت ہی فضول لگ رہے ہو،” یا "ابے گنجے!” لیکن اس کے مقابلے میں مجھے ہمیشہ اپنے سپاٹ سینے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔”
پراتیاشا رانا کہا کہ یہ ظاہری شکل و صورت اور خدو و خال کو نشانہ بنانا یا تو ہم نے اسکول کے بچوں میں دیکھا تھا، اب انٹرنیٹ پر "بڑے” بھی اس کام میں لگ گئے ہیں۔

کیا کامیڈی انڈسٹری خواتین کے لیے محفوظ ہے؟ اس سوال پر جیا سیٹھی کہتی ہیں کہ "خواتین زندگی کے مختلف شعبوں میں جتنی محفوظ ہیں، بس یہ انڈسٹری بھی ویسی ہی ہے۔ ہم خود کو تبھی محفوظ سمجھتے ہیں جب ہمارے ارد گرد خواتین ہی ہوں۔ جب خواتین خود کو دن دیہاڑے بسوں اور ٹرینوں میں محفوظ نہیں سمجھتیں تو سوشل میڈیا پر کیسے سمجھیں؟ گو کہ یہ بات حوصلے توڑنے والی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ خواتین کے لیے یہ سب کچھ نیا نہیں ہے۔”

کامیڈی کی دنیا میں امتیازی سلوک اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کو چند مخصوص موضوعات پر لطیفے سنانے کی اجازت ہے لیکن خواتین کو نہیں۔ اُن کی جانب سے خود تحقیری (self-deprecating humor) لطیفے سنانے کو عجیب سمجھا جاتا ہے لیکن جب مرد کامیڈین ایسا کرتے ہیں تو انہیں خوب سراہا جاتا ہے۔

وپاشا ملہوترا کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے اسٹیج پر "غلط” زبان کا استعمال بھی سختی سے منع ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ معاشرے کی خواتین سے وابستہ توقعات کی وجہ سے بسا اوقات انہیں خود پر سینسر لگانا پڑتا ہے۔ انہوں نے دھونس دھمکیوں اور گالم گلوچ کا سامنا کرنے کے بارے میں بھی بتایا۔ کہتی ہیں کہ انڈسٹری کے سینیئر افراد مددگار نہ ہوں تو معاملات مزید مشکل ہو جاتے ہیں۔

امسونگ کہتی ہیں کہ انٹرنیٹ پر ٹرولنگ کرنے والوں کو خاطر میں نہ بھی لائیں تو منفی تبصرے پڑھنا مایوس کُن ہوتا ہے۔ "میں یہاں لوگوں کو ہنسانے آئی ہوں، کوئی انقلاب لانے نہیں۔” ان کا کہنا تھا کہ کامیڈی میں مردوں نے جو معیارات مرتب کر دیا ہے وہ کامیابی کے اصول سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ خواتین کے لیے موزوں نہیں کیونکہ خواتین چیزوں کو مردوں کے مقابلے میں بالکل مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں۔

کیا ان مسائل کا حل صرف خواتین پر مشتمل کامیڈی شو ہی ہیں؟ سیٹھی اور امسونگ دونوں ایسے شوز کر چکی ہیں جو صرف خواتین کے مخصوص تھے اور وہ انہیں اپنے بہترین شوز کہتی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے