کرونا وائرس، ایک کروڑ سے زیادہ لڑکیاں کبھی اسکول واپس نہیں آ سکیں گی

اسکولوں سے لڑکیوں کے اخراج سے صنفی تفریق، جنسی استحصال اور جبری شادیوں کو فروغ مل رہا ہے

19 سالہ ریچل مٹونی کا تعلق کینیا کے ایک دیہی علاقے سے ہے اور وہ گزشتہ سات مہینوں سے اسکول نہیں گئیں۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ اسکول کی فیس ادا کر سکیں بلکہ بسا اوقات تو ان کے خاندان کو تین وقت کے کھانے کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ "کووِڈ-19 نے میری تعلیمی سفر کو بریک لگا دیے اور میں پورے ایک سال کی تعلیم سے محروم رہ گئی یعنی ایک ہی کلاس میں پورے دو سال۔ اس غیر متوقع وبا سے میرے خاندان کے لیے ممکن نہیں رہا کہ روزمرہ ضروریات کے علاوہ آن لائن کلاسز کے لیے درکار ضروریات بھی پوری کرے۔ ”

مٹونی ان 1.1 کروڑ لڑکیوں میں سے شامل ہیں کہ جو اقوامِ متحدہ کے مطابق ہو سکتا ہے وبا کے ختم ہونے کے بعد بھی کبھی اسکول نہ لَوٹ سکیں۔ وبا کے معاشی اثرات کا دباؤ خواتین کی کاندھوں پر بہت زیادہ پڑا ہے اور گھر سے کام کرنے کی وجہ سے اس حقیقت کا پردہ بھی چاک ہو گیا ہے کہ خواتین کو بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی خود ہی نبھانی پڑے گی۔ اس صورتِ حال میں لڑکیوں کی ایک پوری نسل کو تعلیم کے سماجی و معاشی فوائد سے محروم ہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و سائنس و ثقافت ‘یونیسکو’ کی گزشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق اسکولوں سے نکالے گئے بچوں میں لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی شرح نہ صرف صنفی تفریق میں اضافہ کر رہی ہے، بلکہ اس سے جنسی استحصال اور جبری شادیوں کو بھی فروغ مل رہا ہے۔

عالمی اقتصادی فورم (WEF) کا اندازہ ہے کہ صنفی تفریق کے خاتمے کی رفتار اب اتنی کمزور ہو چکی ہے، اس رفتار سے صنفی مساوات کے حصول میں مزید 130 سال لگ جائیں گے۔ یہ گزشتہ سال کے مقابلے میں پورے 35 سال کا فرق ہے۔

سینٹر فار یونیورسل ایجوکیشن، بروکنگز کی کو ڈائریکٹر اور سینیئر فیلو امیلیانا ویگس کہتی ہیں کہ ہم اس رجحان کے اثرات نہ صرف لڑکیوں کی موجودہ نسل بلکہ آئندہ نسلوں پر بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ایک تعلیم یافتہ ماں اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور کامیابی کا سب سے اہم اشاریہ ہوتی ہے۔

عالمی رہنما صنفی مساوات کے حصول میں ایک پوری نسل کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ امریکا میں پارلیمان کے نمائندوں کے لوئس فرینکل اور مائیکل والٹز نے گزشتہ ہفتے ‘Keeping Girls in School ایکٹ’ متعارف کروایا ہے کہ جس کا مقصد کم ترقی یافتہ ملکوں میں لڑکیوں کی ثانوی تعلیم کے اسکولوں میں موجودگی کو برقرار رکھنا ہے۔ اِس بل کا مقصد اُن رکاوٹوں کا خاتمہ کرنا ہے جو ثانوی تعلیم کے دوران بالخصوص لڑکیوں کو پیش آتی ہیں۔ اس میں بچیوں کی کم عمری کی شادی سے لے کر ان کے ختنے تک کے معاملات شامل ہیں۔ منظور ہونے کی صورت میں یہ بل امریکی امدادی ادارے ‘یو ایس ایڈ’ کو اختیار دے گا کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے نئے بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں پر توجہ ڈالے۔

ویمنز گلوبل ایجوکیشن پروگرام کی بانی ایمی ماگلیو کہتی ہیں کہ قانون سازی کے علاوہ کانگریس کو ان امکانات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ غیر سرکاری انجمنوں اور سرکاری شراکت داریوں کی کس طرح فوری طور پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے، جس سے آج لاکھوں لڑکیوں کے اسکول سے اخراج کو روکنے میں مدد ملے۔

بین الاقوامی سطح پر ‘جی 7’ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 2026ء تک 4 کروڑ مزید لڑکیوں کو اسکولوں میں لانے کا مجموعی ہدف رکھتا ہے۔ اپنے اعلان میں ‘جی 7’ کا کہنا تھا کہ ہم کووِڈ-19 کو جدید تاریخ میں تعلیم کو متاثر کرنے والا سب سے بڑا عنصر سمجھتے ہیں، جو تمام بچوں پر اثر انداز ہوا ہے، خاص طور پر لڑکیوں پر کہ جو پہلے ہی تعلیمی معاملات میں پیچھے تھیں۔

گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین ‘یو این ویمن’ کے اجلاس میں یونیسکو نے ایک پنج سالہ منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کی نظر ‘ڈجیٹل صنفی تقسیم’ (digital gender divide) پر ہے۔ معاشی ماہرین نے اس حوالے سے جو حل پیش کیا ہے، اس میں دنیا بھر میں اسکولوں کو فوری طور پر دوبارہ کھولنے کی تجویز شامل ہے۔ ویگس نے کہا کہ "کووِڈ کی وجہ سے اسکولوں کی بندش نے لڑکیوں کی ایک پوری نسل کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ ہمیں نہ صرف اسکولوں کو دوبارہ کھولنے بلکہ لڑکیوں کی بھرپور واپسی کے لیے بھی کام کرنا ہوگا۔”

لیکن جب تک ایسے اقدامات عملاً اٹھائے جائیں اور ان کے اثرات سامنے آئیں، تب تک لڑکیوں کی ایک پوری نسل کو وبا کے اثرات کا سامنا رہے گا، جس میں ان کی تعلیم کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع ہونے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ مٹونی کہتی ہیں کہ "میری تعلیم ہی میرے لیے سب کچھ ہے۔ اسی سے میں باہر کی دنیا دیکھتی ہوں اور یہی ہے جس سے میں اپنے، اپنے خاندان اور معاشرے کو ایک بہتر زندگی دے سکتی ہوں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے