کشمیر کی بین المذاہب شادی نے سیاسی دراڑیں نمایاں کر دیں

جون کے اواخر میں مقبوضہ کشمیر کے ضلع بارہ مولا میں 19 سالہ سکھ لڑکی من میت کور اور 28 سالہ کشمیری مسلمان شاہد نذیر بھٹ نے گھر سے فرار ہو کر ایک عدالت میں نکاح کیا۔ من میت کے مطابق اس نے گزشتہ سال ہی اسلام قبول کر لیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے شاہد کے ساتھ نکاح کر رہی ہے لیکن جیسے ہی یہ خبر منظرِ عام پر آئی، وادی میں ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی۔

من میت کے خاندان نے اِس شادی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور شاہد نذیر پر لڑکی کے اغوا سمیت مختلف الزامات لگا کر مقدمہ درج کر دیا۔ اس صورت حال میں دونوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تاکہ معاملہ عدالت تک پہنچے اور وہ اپنا بیان دے سکیں۔ من میت نے سری نگر کی ایک عدالت میں بتایا کہ اغوا نہیں کیا گیا اور اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کر کے شاہد سے شادی کی ہے اور اس کا اسلامی نام زویا ہے۔

عین اس موقع پر سکھ برادری کے کئی اراکین، اور من میت کا خاندان عدالت کے باہر موجود تھا اور اس کی حوالگی کا مطالبہ کر رہا تھا اور اسی شام اسے واپس خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ محض دو روز بعد من میت کی شادی ایک مقامی سکھ سے کر دی گئی جبکہ شاہد اب بھی پولیس کی تحویل میں ہے۔

اب بھارت کے چند ہندو قوم پرست سیاست دان مسلمانوں پر الزام لگا رہے کہ وہ سکھوں کی لڑکیوں کو جبراً مسلمان کر رہے ہیں۔ من میت کے معاملے نے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر میں مذہبی کشیدگی پر ایک نیا باب کھول دیا ہے کہ جہاں مسلمان اور سکھ صدیوں سے پر امن انداز سے رہ رہے تھے لیکن مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی شادی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔

سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی شادیوں میں عموماً سیاست اور مذہب کو گھسیٹ کر لایا جاتا ہے اور یوں سیاسی مفادات حاصل کیے جاتے ہیں۔

کشمیر 1990ء کی دہائی میں آزادی کی ایک مسلّح جدوجہد کا مرکز تھا اور یہ تحریک کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی اب ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ جہاں نریندر مودی کی حکومت کشمیر کی ریاستی حیثیت ہی کا خاتمہ کر چکی ہے۔ حالات ویسے ہی بہت کشیدہ ہیں اور عالم یہ ہے کہ مقامی سیاسی جماعتوں کے مطابق مودی سرکار مسلمانوں کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

اس صورتِ حال میں من میت کی شادی کا معاملہ بہت گمبھیر ہو سکتا ہے کیونکہ نئی دلّی میں دائیں بازو کے سکھ رہنما تک اس میں ملوث ہو گئے ہیں اور انہوں نے کشمیری مسلمانوں پر "لو جہاد” کا الزام لگایا ہے۔ یہ وہ اصطلاح ہے جو اب تک سخت گیر ہندو ہی مسلمانوں کے خلاف استعمال کرتے تھے کہ وہ غیر مسلم عورتوں کو بہلا پھسلا کر اُن سے شادی کرتے ہیں اور پھر جبراً ان کا مذہب تبدیل کرواتے ہیں۔

سکھ رہنما منجندر سنگھ نے مطالبہ کیا ہے کہ کشمیر میں بھی تبدیلی مذہب کے خلاف قانون کا نفاذ کیا جائے تاکہ مسلمان غیر مسلم خواتین سے شادی نہ کر سکیں۔ بھارت نے گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی ریاستوں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جس کے تحت تبدیلی مذہب کو مشکل بنا دیا گیا ہے اور اس کا بنیادی ہدف مسلمان ہونے والی خواتین کی شادیاں منسوخ کر کے مسلمانوں کو سزا دینا ہے۔

البتہ چند حلقے ایسے اقدامات کو خواتین پر قابو پانے  کی کوششوں کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔  دہائیوں پہلے ایک مسلمان سے شادی  کرنے والی ایک سکھ خاتون چن میت کور  کہتی ہیں کہ من میت کی دوبارہ جبراً شادی محض نام نہاد غیرت کے نام پر کروائی گئی ہے۔ سکھ مظاہرین نے ہٹ دھرمی، زن بیزاری اور پدر شاہی (patriarchal) روایات کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ پوری سکھ برادری کی نمائندگی نہیں کرتے۔  سری نگر میں مقیم کئی مسلمان اور سکھوں کا کہنا ہے کہ دونوں برادریاں اس خطے میں صدیوں سے پُر سکون انداز میں رہ رہی ہیں اور چند گروہ اپنے مفادات کی خاطر اس معاملے پر سیاست کھیل رہے ہیں اور آگ بھڑکا رہے ہیں۔

ایک مقامی سکھ رہنما اور چیئرمین آل پارٹیز سکھ کوآرڈی نیشن کمیٹی جگ موہن سنگھ رینا کہتے ہیں کہ کشمیر میں کوئی جبری تبدیلی مذہب نہیں ہو رہی۔ کشمیر کی سکھ برادری مختلف مذاہب کے افراد کے مابین شادی کے نام پر کسی کو سیاسی فوائد سمیٹنے نہیں دے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے