برطانیہ سے اپنے والد کے جنازے پر پاکستان آنے والی خاتون کے ساتھ ریپ کا واقعہ ایک روز بعد ہی جھوٹا ثابت ہو گیا۔
وحدت کالونی، لاہور میں پیش آنے والے اس واقعے کی خبریں قومی اخبارات سے لے کر برطانوی میڈیا تک میں پہنچ گئیں، جس کی بنیاد پر "مشہور” برطانوی اخبار ‘ڈیلی میل’ نے کئی گڑھے مردے بھی اکھاڑے اور کہا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران پاکستان میں 22 ہزار خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا ہے۔
26 سالہ خاتون کی ریپ کہانی خود ساختہ اور من گھڑت تھی، جو اس نے ملزم فیضان کو سبق سکھانے کے لیے بنائی تھی۔
خاتون، جن کا نام امن بتایا جاتا ہے، نے 29 جون کو پولیس کو بذریعہ فون اطلاع دی تھی کہ وہ چھ ماہ پہلے اپنے والد کے انتقال کی وجہ سے برطانیہ سے پاکستان آئی تھی لیکن سوتیلی ماں کی جانب سے گھر میں نہ ٹھیرائے جانے کی وجہ سے وہ اپنے والد کے دوست تقویم احسن کے گھر رہائش پذیر تھی۔ جہاں ان کے بیٹے فیضان نے 26 جون کی صبح ان کے گھر میں گھس کر ان کے ساتھ زیادتی کی اور یہ سلسلہ مزید تین دن تک جاری رہا۔
خاتون کے مطابق وہ بیمار ہیں اور انہیں ہسپتال تک رسائی بھی نہیں دی جا رہی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مجبور ہوکر پولیس سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس واقعے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اور پاکستانی اخبارات سے لے کر خاص طور پر بھارت اور برطانیہ کے میڈیا اداروں نے اسے خوب اچھالا۔
ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی لاہور میں مائرہ نامی ایک برطانوی خاتون کے قتل کا واقعہ پیش آ چکا تھا کہ جسے دو دوست لڑکوں نے شادی کی پیشکش کی تھی، لیکن انکار کے بعد ایک روز اسے نامعلوم افراد نے قتل کر دیا تھا۔
بہرحال، اس تازہ واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور پولیس کو ملزم کی فوری گرفتاری اور جلد مکمل تحقیقات کا حکم دیا۔
لیکن تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ خاتون کے دعوے سراسر غلط ہیں۔ دراصل وہ خود نشے کی عادی ہے اور فیضان کی جانب سے منع کرنے پر اسے سبق سکھانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
پولیس کے مطابق فیضان امن کو منشیات کے استعمال سے روکتا تھا، جس پر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ فیضان سے بدلہ لے گی۔ خاتون نہ صرف یہ کہ خود تھانے میں پیش نہیں ہوئیں، بلکہ پرچہ کٹوانے کے لیے غلط معلومات بھی پیش کیں جن میں شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون نمبر تک غلط تھے۔ اس کے علاوہ خاتون نے ریپ کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے اپنا میڈیکل چیک اپ کروانے سے بھی انکار کر دیا۔ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لڑکی برطانوی نہیں ہے اور اس نے اس حوالے سے بھی جھوٹ ہی بولا ہے۔
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی جعلی واقعے کی خبر یوں پھیل گئی ہو۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی ایک لڑکی سنیتا مسیح کے ساتھ ریپ کرنے، جبری تبدیلی مذہب اور سر مونڈنے کی خبر بھی خوب وائرل ہوئی تھی، یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا پر بھی اسے خوب اچھالا گیا، لیکن بعد ازاں پتہ چلا کہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے پیش ہی نہیں آیا اور جس لڑکی کی تصویر استعمال کی گئی ہے، وہ کوئی اور ہے اور اپنے والدین کے انتقال پر رو رہی ہے۔
ویسے کیا یہ خبر غلط ثابت ہونے کے بعد ‘ڈیلی میل’ اور بھارتی اخبارات اس کی تردید چھاپیں گے؟
جواب دیں