پاکستانی خواتین خود سوزی اور اقدامِ خود کشی کیوں کر رہی ہیں؟

غربت، گھریلو تشدد، کم تعلیم اور ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی نہ ہونا، یہ سب عوامل پاکستان کی خواتین میں خود سوزی کے رویّے کو بھڑکاتے ہیں

اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں ثریا محمود (فرضی نام) داخل ہیں جنہیں شدید زخمی حالت میں لایا گیا تھا۔ ان کے اہلِ خانہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ایک حادثے کی وجہ سے جل گئی تھیں جبکہ 35 سالہ ثریا کہتی ہیں کہ انہوں نے جان بوجھ کر خود کو آگ لگائی۔

ثریا گلگت بلتستان سے تعلق رکھتی ہیں، جنہیں مئی کے اواخر میں اسلام آباد کے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (PIMS) ہسپتال میں لایا گیا تھا۔ گھر والوں کا کہنا ہے کہ گیس کا چولہا کھلا رہ گیا تھا اور جب ثریا باورچی خانے میں چائے بنانے کے لیے گئیں تو ماچس جلاتے ہی آگ لگ گئی۔ لیکن ہسپتال میں ثریا کا بیان مختلف تھا۔ ان کے ڈاکٹر محمد ریحان کہتے ہیں کہ مریضہ نے ہمیں بتایا کہ اس نے یہ قدم خود اٹھایا تھا کیونکہ اس کے شوہر اور سسرالی اس پر تشدد کرتے ہیں اور وہ حالات سے تنگ آ چکی ہے۔

پاکستان میں خاص طور پر غریب گھرانوں میں آگ لگا کر خود سوزی یا خود کشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ PIMS کے برن سینٹر میں گزشتہ دو سال کے دوران ایسی 75 خواتین داخل ہوئی ہیں جبکہ مردوں کی تعداد صرف 18 رہی۔ ان میں سے 61 فیصد خواتین شادی شدہ تھیں اور اکثریت کا تعلق دیہی پسِ منظر سے تھا۔

سخت غربت، گھریلو تشدد، کم تعلیم اور ذہنی صحت کی خدمات تک رسائی نہ ہونا، یہ سب عوامل پاکستان کی خواتین میں خود سوزی کے رویّے کو بھڑکاتے ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا رویہ کہیں کم پایا جاتا ہے جبکہ جبکہ ترکی، ایران اور افغانستان سے پاکستان اور اس سے آگے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں یہ رجحان بڑے پیمانے پر موجود ہے۔

خود سوزی کی بڑی وجہ شادیوں پر تنازع اور گھریلو تشدد بتائی جاتی ہیں۔ سندھ کے ایک دیہی ضلع جام شورو میں خود سوزی کے 154 واقعات کے بعد ہونے والی تحقیق سے پتہ چلایا کہ ان واقعات میں 63 فیصد خواتین نے خود کو جلا کر خود کشی کی کوشش کی جبکہ مردوں میں یہ شرح 37 فیصد تھی۔ زیادہ تر خواتین نے "خاندانی جھگڑوں اور گھریلو ناچاقی” کو وجہ قرار دیا۔

کراچی کے سول ہسپتال کے برن سینٹر کے مطابق ایسی خواتین زیادہ تر گھریلو مسائل کا شکار ہوتی ہیں مثلاً شوہر سے ناچاقی یا سسرال سے جھگڑے۔ بسا اوقات انہیں روزمرہ کی بنیاد پر گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کا نتیجہ بالآخر اس انتہائی قدم کی صورت میں نکلتا ہے۔

اسلام آباد میں ماہر نفسیات عبد الوہاب یوسف زئی کہتے ہیں کہ

گھریلو تشدد کے علاوہ سماجی و معاشی خود مختاری کی کمی، والدین کی بہت زیادہ توقعات اور دوستوں کے دباؤ کی وجہ سے بھی کچھ لوگ ایسا کر گزرتے ہیں۔ دراصل اس میں کئی عوامل شامل ہیں، لیکن گھریلو تشدد سب سے نمایاں ہے۔ خواتین کو اپنے انتہائی ذاتی معاملات میں بھی فیصلہ سازی کا بہت کم اختیار دیا جاتا ہے اور یہ بات انہیں ذہنی طور پر بُری طرح متاثر کرتی ہے۔

تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ گھریلو تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کا خود کشی یا خود سوزی کی طرف جھکاؤ بہت زیادہ جاتا ہے۔ ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ

جب خواتین مایوس ہو جاتی ہیں اور ذہنی صدمے سے متاثر ہوتی ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ اب واحد راستہ یہی رہ گیا ہے۔ ایسے واقعات بھی ملتے ہیں کہ جن میں کسی خاتون نے جھیل یا نہر میں چھلانگ لگا دی اور بچوں سمیت خود کشی کر لی۔

معاشرے میں عام ہونے کے باوجود پاکستان میں خود سوزی کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر نہیں آتے، جس کی وجہ خود کشی کا جرم ہونا ہے۔ تعزیراتِ پاکستان کے تحت خود کشی کی کوشش کرنے والے فرد کو جرمانہ یا ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں خود کشی کے اعداد و شمار مرتب نہیں کی جاتے، اس لیے ایسا کوئی ڈیٹا موجود نہیں جس سے اس کی شرح کے بارے میں پتہ چلے۔ البتہ ذہنی امراض اور خود کشی سے جو بدنامی منسلک ہے، اس کی وجہ سے ایسے واقعات سامنے نہیں لائے جاتے اور نفسیاتی علاج کروانے میں بھی جھجک محسوس کی جاتی ہے، حالانکہ ایسے مریضوں کو اس کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔

ڈاکٹر ریحان کہتے ہیں کہ بعض اوقات مریض اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو چھپانے کی کوشش بھی کرتا ہے کیونکہ وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔ شاید اپنے خاندان کی وجہ سے یا پھر سماجی دباؤ کی بدولت، وہ اپنے اصل بیان سے مکر جاتے ہیں۔

مہناز رحمٰن کے مطابق بہت سے خود سوزی یا خود کشی کے واقعات دراصل قریبی رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کے واقعات ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خاتون کو مرنے سے پہلے بیان دینے کا موقع نہیں مل پاتا اور کبھی اس پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ حقیقت بتانے سے انکار کر دیتی ہے۔

تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان خواتین کے لیے دنیا کا چھٹا خطرناک ترین ملک ہے۔ صرف 2020ء میں 2,297 خواتین کو کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ جس میں جنسی تشدد، گھریلو تشدد اور تیزاب سے حملے وغیرہ شامل ہیں۔ اصل تعداد البتہ ان واقعات سے کہیں زیادہ ہوگی۔

برن سرجن باسط علی بتاتے ہیں کہ میں نے ایسے کیس بھی دیکھے ہیں کہ جن میں شوہروں، ساسوں اور دیگر خاندان کے افراد نے خاتون پر تیزاب پھینکا ہوتا ہے، یا انہیں آگ لگا دی ہوتی ہے یا ان پر اُبلتا ہوا پانی پھینکا ہوتا ہے۔

پاکستان نے گھریلو تشدد کے حوالے سے کئی قوانین موجود ہیں۔ 2013ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا تھا اور 2014ء اور 2016ء میں بلوچستان اور صوبہ پنجاب کی اسمبلیوں نے بھی گھریلو تشدد کے خلاف قوانین کی منظوری دی۔ رواں سال کے اوائل میں صوبہ خیبر پختونخوا نے بھی ایسا ہی قانون منظور کیا کہ جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا ہے۔ لیکن قانون سازی کے باوجود عملی میدان میں اس کا نفاذ بہت کم نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں شعور اجاگر کرنے کا کام کر رہی ہیں۔

مہناز رحمٰن کہتی ہیں کہ

یہاں تو نہ پولیس قوانین سے آگاہ ہے اور نہ ہی عدلیہ کو پتہ ہے۔ اس لیے ایسا نظام ترتیب دینے کی ضرورت ہے کہ جس میں پہلے سب کو موجودہ قوانین کے حوالے سے آگاہی دی جائے اور یہ بھی کہ یہ قوانین کس طرح ان کا تحفظ کر سکتے ہیں۔

 

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: آخر اقدامِ خود کشی اب تک جرم کیوں؟ - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: بھارت میں ہزاروں گھریلو خواتین کی خود کشیاں، سبب کیا؟ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے