امن مشن اور جنسی حملے، پاکستان اقوامِ متحدہ کے ضابطہ اخلاق سے وابستہ

کسی امن مشن کے رکن کی جانب سے جنسی حملے کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کا اعادہ

پاکستان نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے ضابطہ اخلاق کو مضبوط کرتے ہوئے کسی امن مشن کے رکن کی جانب سے جنسی حملے کو کسی صورت برداشت نہ کرنے کا اعادہ کیا ہے۔

اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے عبوری مستقل مندوب عامر خان کا کہنا ہے کہ

جو مظلوم کے محافظ ہیں، انہیں کسی صورت ظالم بننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

انہوں نے اقوامِ متحدہ کے پرچم تلے کسی بھی قسم کے جنسی استحصال اور ایسے مظالم کے خاتمے سے پاکستان کی بھرپور وابستگی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہزاروں مرد و خواتین کے مثالی کام کو چند لوگوں کی قابلِ نفرت حرکتوں کی وجہ سے داغ دار نہیں ہونے دیں گے۔

اجلاس میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے بذریعہ وڈیو لنک شرکت کی اور کہا کہ کسی بھی مشن کو امن دوستوں کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی بھرپور پیروی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستانی مندوب نے احتساب اور شفافیت کے عمل کو بہتر بنانے کے ذریعے جنسی استحصال کے خاتمے کے لیے اقوامِ متحدہ کے طرز عمل کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ سیکریٹری جنرل کے بیانات اور عملی اقدامات کا نتیجہ ہے کہ امن مشن میں جنسی استحصال کے واقعات اب 10 سال کے اوسط سے بھی کم ہو گئے ہیں۔

عامر خان نے کہا کہ

امن فوج کی جانب سے ضابطہ اخلاق کی پیروی اقوامِ متحدہ کی ساکھ کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان گزشتہ چھ دہائیوں سے امن فوج میں اپنی شرکت پر فخر محسوس کرتا ہے۔ چند انتہائی خطرناک امن مشنز میں خدمات انجام دینے کے باوجود پاکستانی دستے اقوامِ متحدہ کے قانون اور ضابطہ اخلاق کے ساتھ وابستگی کے ساتھ ساتھ اپنے پیشہ ورانہ اقدامات اور عزم و حوصلے کی تاریخ رکھتے ہیں۔

اس وقت پاکستان اقوامِ متحدہ کے 12 میں سے 9 امن مشنز پر خدمات انجام دے رہا ہے کہ جن میں شہریوں کے تحفظ سے لے کر انسانی امداد اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر تک کے اقدامات شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دستے امن معاہدوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ ان ممالک میں قانون کی حکمرانی، اداروں کی تعمیر اور سکیورٹی شعبوں میں اصلاحات پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسکول تعمیر کیے اور مفت میڈیکل کیمپ لگانے کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے اقدامات ایک جامع امن مشن کا حصہ ہیں کہ جس میں بنیادی توجہ مظلوم طبقات، بالخصوص خواتین اور بچوں، پر ہے۔

عامر خان نے بتایا کہ اس کے لیے پاکستان نے ڈاکٹر، نرس، صنفی مشاورت اور ہنر مندی کی تربیت دینے والوں کے کردار میں خواتین پر مشتمل امن عملہ بھی پیش کیا ہے۔ 2019ء میں پاکستان نے پہلی مکمل طور پر خواتین پر مشتمل ایک ٹیم افریقہ بھیجی۔ جس نے مقامی آبادی میں کئی کامیاب منصوبوں کا آغاز کیا، جن میں طلبہ، اساتذہ اور خواتین کے لیے تربیتی سیشن اور پولیس اہلکاروں کے لیے نفسیاتی ورکشاپ شامل رہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امن دستوں کی تربیت کے لیے بھی انتظامات کیے ہیں جو اقوام متحدہ کے معیارات کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے۔

اسلام آباد میں قائم سینٹر فار انٹرنیشنل پیس اینڈ اسٹیبلٹی (CIPS) ایسے تربیتی پروگرام پیش کرتا ہے جو جنسی استحصال اور مظالم سمیت دیگر رویّوں کے حوالے سے ہے۔ پاکستانی امن مشن کے اراکین کے علاوہ دوست ممالک کے تقریباً 250 اہلکار بھی CIPS سے تربیت پا چکے ہیں کہ جن میں سے 22 خواتین شامل ہیں۔

One Ping

  1. Pingback: اقوام متحدہ کی امن فوج پر جنسی استحصال کے الزامات، 450 اہلکار وطن واپس بھیج دیے گئے - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے