پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین نے بچوں اور خواتین کے ساتھ مبینہ زیادتی اور غیر اخلاقی حرکات کے مشہور زمانہ کیس میں گرفتار نجی اسکول کے پرنسپل عطاء اللہ مروت کی 105 سال قید اور 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا کالعدم قراردے دی۔ ملزم کے خلاف متاثرہ افراد کی جانب سے عدالت میں کوئی پیش نہ ہوا اور پراسیکیوشن بھی ملزم کے خلاف ٹھوس ثبوت پیش نہ کرسکی جس پر ملزم کو بری کردیا گیا۔
عطااللہ کیس کب کیا ہوا؟
حیات آباد چلڈرن اکیڈمی کے پرنسپل عطاءاللہ مروت پر الزام تھا کہ وہ زیرتعلیم طلبا کوجنسی تشدد کا نشانہ بنا کر ان کی ویڈیو بناتا تھا۔ طلبا کے ساتھ زیادتی، غیر اخلاقی حرکات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی پورنو گرافی وغیرہ میں ملوث تھا، جبکہ ان پر یہ الزام بھی لگایا گیا کہ وہ فاحشاؤں کو سکول لاتے ہیں۔ جس پر متاثرہ افراد اور طالب علموں نے مختلف اوقات میں شکایات درج کرائیں۔ حیات آباد پولیس نے ملزم کو 14 جولائی 2017ء کو اسکول سے گرفتار کیا تھا اور اس کے قبضے سے غیر اخلاقی میگزین، ویڈیوز ، دیگر مواد اور ادویات بھی برآمد کی تھیں۔ملزم کے خلاف خواتین کے استحصال، بچوں کے ریپ، پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ملزم عطااللہ نے 19جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں اعتراف کیا کہ وہ زنا کی غرض سے فاحشاؤں کو سکول میں لاتا تھا اور اس کو اپنی جنسی حرکات کی ویڈیوز بنانےکا شوق تھا۔ ملزم نے کم از کم 80 خواتین کے ساتھ جنسی حرکات کا اعتراف کیا تھا جن میں کم عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ ملزم کے خلاف الزامات ثابت ہونے پر سیشن جج پشاور یونس خان نے30 اکتوبر 2018 کو خواتین سے زیادتی اور ان کی برہنہ فلمیں بنا کر انہیں بلیک میل کرنے کے بارہ مقدمات میں عطااللہ کو 105 سال قید اور20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے خلاف ملزم نے پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی۔
ملزم پرنسپل عطاءاللہ کی سزا کے خلاف اپیل کی سماعت قبل ازیں جسٹس لعل جان خٹک اور جسٹس ناصر محفوظ پرمشتمل دو رکنی بنچ نے کی تھی تاہم اپیل کی سماعت مکمل ہونے پر دو رکنی بنچ میں اختلاف رائے کی بنا پر اپیل ریفری جج جسٹس روح الامین کو بھجوا دی گئی تھی جنہوں نے دلائل مکمل ہونے پر اپیل منظور کرکے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
ملزم کی جانب سے حسین علی اور شبیر حسین گگیانی ایڈوکیٹ نے اپیل کی پیروی کی۔ دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ پولیس اور پراسیکیوشن ملزم کے خلاف متاثرہ افراد میں سے کوئی بھی عدالت میں پیش نہ کرسکی جو الزامات کو ثابت کرسکے۔ اس طرح میڈیکل کے بھی فرانزک ثبوت موجود نہیں ہیں جبکہ عدالت کے سامنے کوئی آڈیو، ویڈیو یا جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل شہادت پیش نہیں کی گئی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اسکول مالکان، عطااللہ سے پیشہ وارانہ حسد رکھتے تھے اس لیے اس کو اس کیس میں پھنسایا گیا۔ دو رکنی بنچ نے دلائل مکمل ہونے پر ملزم کو تمام الزامات سے بری کرنے کا حکم دے دیا۔
جواب دیں