ہر ترقی پسند قوم اس امر کو یقینی بناتی ہے کہ وہ خواتین کو سماجی اور معاشی دونوں لحاظ سے قومی دھارے میں شامل کرے کیونکہ اگر دنیا کی نصف آبادی معاشرے میں کوئی نتیجہ خیز کردار ادا کرنے کا ہنر نہ رکھتی ہو تو دنیا پائدار مستقبل کی حامل نہیں ہو سکتی۔ یعنی خواتین ایک اچھی آمدنی حاصل کرنے کے لیے تعلیم یافتہ اور اہلیت کی حامل ہوں اور معاشرہ انہیں اپنا حصہ مثبت انداز میں ادا کرنے کا موقع فراہم کرے۔ کیونکہ صنفی مساوات معاشرے میں موجود انسانی وسائل کے بہترین استعمال کو یقینی بناتی ہے اس لیے کارپوریٹ سیکٹر بھی پیشہ ورانہ اور کاروباری آپریشنز میں خواتین کی شمولیت کے لیے ان کی خواندگی کی تائید کرتا ہے۔
پاکستان میں چند کارپوریٹ اداروں کی جانب سے خواتین کو با اختیار بنانے کے شاندار پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن میں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی (SECMC) نے "تھر فاؤنڈیشن” کے ذریعے ملک کے دور دراز علاقے تھرپارکر کی خواتین کے لیے ایک مثالی قدم اٹھایا ہے، جہاں صحرا کے مکینوں کی اکثریت زندگی کی انتہائی بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، پینے کا صاف پانی، صحت عامہ، تعلیم وغیرہ سے بھی محروم ہے۔
جب سے کمپنی نے تھر میں مختلف منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہے، تب سے اس کی انتظامیہ مقامی آبادی کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات اٹھا چکی ہے۔ تھر فاؤنڈیشن کے اس کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی (CSR) منصوبے کا مقصد خواتین کو مالی اور سماجی دونوں لحاظ سے با اختیار بنانا ہے کہ جس میں مستحق خواتین کے لیے ‘گرانٹس’ کا پروگرام بھی شامل ہے۔
SECMC اور تھر فاؤنڈیشن کی مدد کی بدولت تھر کی دیہی معیشت میں خواتین کا کردار بڑھتا جا رہا ہے جبکہ ان میں سے چند تو تربیت یافتہ ڈمپ ٹرک ڈرائیور کی حیثیت سے ملازمت بھی کر رہی ہیں۔ ان خواتین ڈرائیوروں کو تھر بلاک II میں کوئلے کی کان اور بجلی کے منصوبوں میں تعینات کیا گیا ہے، جو دنیا میں lignite کوئلے کے دنیا کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے اور ان پر SECMC اور اینگرو پاور جن تھر لمیٹڈ (EPTL) دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
’خواتین ڈمپ ٹرک ڈرائیور پروگرام’ 2017ء میں تھر کے شہر اسلام کوٹ کے قریب شروع کیا گیا تھا اور اب تک اس پسماندہ علاقے میں اس پر بہترین ردِ عمل دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کی وجہ سے تھر کی پسماندہ خواتین کو پاکستان کے سب سے بڑے ڈمپ ٹرکوں میں ڈرائیور کی حیثیت سے تربیت اور ملازمت ملی۔ ان خواتین کو کوئلے کو کان سے پاور پلانٹ تک پہنچانے کے لیے بہترین تنخواہ دی جاتی ہے اور یوں وہ ملک میں بجلی کی پیداوار میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس پروگرام کو اب عالمی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے، اور متعدد مقامی اور بین الاقوامی ادارے فخریہ طور پر اس کا ذکر کر چکے ہیں اور ان خواتین ڈرائیوروں کو سراہ چکے ہیں۔
ان ڈرائیوروں میں سے ایک نصرت خاص خیلی ہیں جو تین بچوں کی ماں ہیں اور ان کا تعلق تھر کے علاقے مٹھی سے ہے۔ وہ مڈل پاس ہیں اور اپنے شوہر کی معمولی سی آمدنی پر گزارا کرنے پر مجبور تھیں کیونکہ ایسے کوئی مواقع ہی میسر نہیں تھے کہ جس کے ذریعے وہ گھر میں اپنا حصہ ڈال پاتیں۔ پھر انہوں نے تمام رکاوٹوں کو عبور کیا اور ویمن ڈمپ ٹرک ڈرائیور اسکیم میں حصہ لے کر تربیت یافتہ صنعتی کارکن بننے کا فیصلہ کیا اور اب ان کی زندگی ہی بدل گئی ہے۔ حال ہی میں انہیں نہ صرف اپنے خاندان کی معاشی حالت بہتر بنانے بلکہ تھرکی خواتین کے لیے ایک حوصلہ افزا علامت کی حیثیت سے ابھرنے پر سندھ ویمن کمیشن کی جانب سے ایک نمایاں اعزاز بھی دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تھر فاؤنڈیشن نے علاقے خواتین کو انٹریپرینیور بننے اور مصنوعات کی مارکیٹنگ کرنے میں تربیت اور معاونت کے لیے ‘خوشحال ناری پروگرام’ بھی شروع کیا ہے۔ خوشحال ناری پروگرام کے تحت 20 خواتین کو یونیفارم سینے کی پیشہ ورانہ تربیت دی گئی اور اب وہ اپنے گھرانوں کے لیے نمایاں آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش کمیونٹی گرانٹس پروگرام کے تحت بھی کی گئی ہے جس کے تحت 17 خواتین کو چھوٹے موٹے کاروبار کے لیے 50,000 روپے تک فراہم کیے گئے، جو انہیں معاشی بحالی میں مدد دے سکتے ہیں۔ اب تک تھر پارکر کے اسٹیک ہولڈرز کو تقریباً 20 لاکھ روپے بطور گرانٹ فراہم کیے جا چکے ہیں۔
تھرپارکر میں خواتین کی تعلیم بھی ایسا اہم شعبہ ہے جس پر بہت توجہ دی جا رہی ہے۔ خواتین میں خواندگی کی شرح بہت کم ہونے اور ان کے لیے مخصوص سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے فاؤنڈیشن نے علاقے میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے اور لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
اس مقصد کے حصول کے لیے 24 پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کا نیٹ ورک تھر کے مختلف علاقوں میں قائم کیا گیا ہے کہ جہاں 1,200 لڑکیاں اس وقت داخل ہیں اور معیاری تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ تھر فاؤنڈیشن کے اسکولوں کی طالبات کو غیرنصابی سرگرمیوں میں شامل ہونے کا موقع بھی دیا جا رہا ہے کہ جن میں فیلڈ ٹرپس، سائنس میلے، اسپیلاتھون مقابلے اور حیران کن طور پر خواتین کے فٹ بال ٹورنامنٹس شامل ہیں۔ خواتین جنہوں نے پہلے کبھی فٹ بال نہیں کھیلا تھا، اب زبردست کھلاڑی بن چکی ہیں اور تھر فاؤنڈیشن اسکول کی دو طالبات جمنا بھیل اور دیوی جھانجھو، جن کی عمریں بالترتیب 13 اور 11 سال ہیں، 2019ء میں چین میں ہونے والے گوٹیا فٹ بال ورلڈکپ میں بھی شرکت کر چکی ہیں۔
تھر میں خواتین کے لیے ایک اور اہم مسئلہ صحت کی معیاری سہولیات کی فراہمی ہے۔ زچہ اور بچہ کی صحت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے فاؤنڈیشن نے ہسپتالوں اور کلینکس کا ایک نیٹ ورک قائم کیا ہے، جسے خواتین کی صحت کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے موبائل میڈیکل بس کی مدد بھی حاصل ہے۔ یہ طبی سہولیات تھر کے عوام کو مفت مشاورت، تشخیص، ٹیسٹ اور ادویات کی فراہمی یقینی بناتی ہیں۔ ان طبی سہولیات کی بدولت تھر بلاک II میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران زچہ و بچہ کی اموات صفر ہوگئی ہیں۔
اس کے علاوہ فاؤنڈیشن نے تھر میں RO پلانٹس کی تنصیب اور بحالی کے لیے اقدامات اٹھائے تاکہ خواتین کو صحرا کی سخت گرمی میں دور دراز علاقوں سے پانی حاصل کرنے کی جدوجہد سے چھٹکارا ملے۔ اب تک ایسے 18 پلانٹس لگائے جاچکے ہیں جن میں سے 10 دراصل تربیت یافتہ خواتین چلا رہی ہیں اور یوں پلانٹ آپریٹر کی حیثیت سے اضافی آمدنی حاصل کرتی ہیں۔
اس منصوبے سے فائدہ اٹھانے والی اسلام کوٹ کی 25 سالہ حنا کوہلی بھی ہیں۔ ایک سرکاری کالج سے گریجویشن کرنے والی حنا کو تھر فاؤنڈیشن نے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے اور انہیں خواتین آر و پلانٹ منصوبے کی سپروائزر بنایا ہے۔ ابتدائی تربیت کے بعد وہ نہ صرف پلانٹ چلاتی ہیں اور صاف پانی کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں بلکہ علاقے کی مزید 11 خواتین کو قائل کرنے اور ان کو تربیت دینے کا کام بھی انجام دے چکی ہیں۔ ان خواتین کے علاوہ یہ آر او پلانٹس تھر بلاک II اور اس سے بھی آگے کے تقریباً 30 ہزار مکینوں کو سہولت دے رہے ہیں۔
عالمی اقتصادی فورم کے مطابق پاکستان جینڈر گیپ انڈیکس میں دنیا کے آخری تین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صحت، تعلیم اور مالیاتی شمولیت جیسے بنیادی سماجی اشاریوں میں پیچھے رہنے کی وجہ سے پاکستان کی خواتین کو مالی، معاشی، سماجی و سیاسی اختیار میں کمزور سمجھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ ملک کی تقریباً 50 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔
تھرپارکر میں کہ جہاں خواتین عموماً کھانے پکانے، ایندھن کے لیے لکڑیاں جمع کرنے، بچوں کی پرورش، کھیتی باڑی اور مویشی پروری جیسے روایتی کاموں تک ہی محدود تھیں، اب سماجی ممنوعات کو توڑ رہی ہیں اور اپنی جرات اور اعتماد کی بدولت کئی رکاوٹیں عبور کر رہی ہیں۔
جواب دیں