بھارت کی ریاست کیرالا میں مبینہ طور پر جہیز کی وجہ سے چار نوجوان شادی شدہ خواتین کی موت کے بعد حکومت نے جہیز کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا۔ اس کے باوجود کہ ریاست میں جہیز دینے اور لینے پر گزشتہ 60 سال سے پابندی ہے، لیکن اب بھی یہ قبیح رسم عام ہے۔
عموماً والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کے موقع پر سونے کے زیورات دیتے ہیں، لیکن آجکل جہیز میں دلہا کے خاندان کے لیے مہنگے ترین "تحفے” بھی شامل ہو گئے ہیں، جن کی وجہ سے بیٹیاں رکھنے والے خاندانوں پر سخت مالی دباؤ پڑتا ہے اور بسا اوقات یہ وجہ نزاع بن جاتا ہے اور اس سے لڑکی اور ان کے خاندان کا استحصال ہوتا ہے۔
ریاست کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجے ین کا کہنا ہے کہ ان افسوس ناک واقعات کے بعد کیرالا نے سخت اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ "شادی خاندانوں کی سماجی حیثیت اور دولت کی نمود و نمائش کا موقع نہیں ہوتی۔ والدین کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جہیز کا یہ ظالمانہ نظام ہماری بیٹیوں کو رسوا کر رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ جہیز کی وجہ سے شوہر یا سسرال کی جانب سے کسی بھی قسم کے استحصال کا سامنا کرنے والی خواتین کے لیے ایک مددگار ہیلپ لائن تشکیل دی گئی ہے جو 24 گھنٹے کام کر رہی ہے جبکہ اسکول کی کتابوں پر بھی نظر ثانی کی جا رہی ہے تاکہ خواتین کی تحقیر کرنے والے الفاظ اور مواد کو خارج کیا جائے۔
اس کے باوجود کہ کیرالا میں خواتین کی شرحِ خواندگی بہت زیادہ ہے اور یہ ملک کی سب سے ترقی پسند ریاست سمجھی جاتی ہے، ایسے واقعات کے پیش آنے کی وجہ سے ریاست میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
وسما نایر، جن کی عمر 20 سال سے کچھ زیادہ تھی، گزشتہ ہفتے اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھیں۔ انہوں نے شوہر کے ہاتھوں تشدد پر چند پیغامات اور تصویریں ایک کزن کو بھیجی تھیں، جس کی وجہ ممکنہ طور پر جہیز میں دی گئی نئی گاڑی کی کم مائلج پرشوہر کا شکوہ تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ وہ تحقیقات کر رہی ہے کہ آیا وسما نے خود کشی کی تھی یا اسے قتل کیا گیا۔ البتہ لڑکی کے خاندان نے سسرال کے خلاف جہیز کے نام پر ہراساں کرنے کا مقدمہ درج کروا دیا ہے۔
وسما کی موت سے محض چند دن پہلے ایک شادی شدہ خاتون کی جلی ہوئی لاش ملی تھی جبکہ دو مزید خواتین کی پھندا لگی لاشیں بھی پائی گئیں۔ ان کے خاندانوں نے بھی جہیز کے حوالے سے ہراساں کیے جانے کی شکایات کی ہیں۔
بھارت میں جہیز کے خلاف قانون 1961ء میں بنایا گیا تھا، لیکن اب بھی ملک میں جہیز عام طور پر قبول کیا جاتا ہے اور دیا جاتا ہے۔
ریاستی دارالحکومت میں واقع سینٹر فار ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کی اسکالر جے دیویکا کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ اموات دراصل مدد کے لیے اٹھنے والی آوازیں ہیں۔ خواتین کو شادی کے موقع پر جو ملتا ہے وہ ترکے کا حصہ ہوتا ہے، لیکن وہ ورثے میں ملنے والی دولت میں تمام سونا اور چیزیں اپنے شوہر اور اس کے خاندان کو دے دیتی ہے۔
تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار ے مطابق صرف 2019ء میں جہیز کے خلاف قانون کے تحت 13,000 سے زیادہ شکایتیں سامنے آئیں۔ صرف کیرالا میں 2016ء سے 2020ء کے دوران جہیز کی وجہ سے 66 اموات ہوئیں کہ جن میں خود کشی کے واقعات بھی شامل ہیں جبکہ اسی عرصے میں شوہر اور رشتہ داروں کے ہاتھوں مظالم کے 15,000 سے زیادہ واقعات بھی سامنے آئے۔
انسپکٹر جنرل پولیس پی وجے ین کا کہنا ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران کیرلا میں گھریلو تشدد کے معاملات دیکھنے والے مراکز کو خواتین کی 6,000 سے زیادہ کالز موصول ہوئی ہیں۔ ” کیرالا میں تقریباً 75 لاکھ گھرانے ہیں اور متعدد اقدامات کے باوجود ہمیں اندازہ ہے کہ تمام خواتین جہیز کے خلاف شکایت لے کر سامنے نہیں آتیں۔ یہ افسوس ناک اموات ظاہر کرتی ہیں کہ اس حوالے سے مزید شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ اب ہماری توجہ خواتین کو جہیز کی بنیاد پر ہراساں ہونے سے بچانا اور ایسے واقعات کو منظرِ عام پر لانا ہے۔ ہم خواتین سے یہی کہیں گے کہ وہ آواز اٹھائیں اور مزاحمت کریں۔”
وزیر اعلیٰ نے خواتین کو آگے بڑھ کر ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے اور یوں اس "ناانصافی کے خاتمے” میں مدد دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہیلپ لائن کے علاوہ اسکولوں اور کالجوں میں بھی صنفی مساوات کے قیام کے لیے کام کیا جائے گا۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حوالے سے مزید اقدامات بھی اٹھائے جائیں مثلاً شادیوں میں نمود و نمائش اور جہیز دینے یا قبول کرنے والوں کو سخت سزا دینا۔ اس کے علاوہ انہوں نے موجودہ قوانین میں چند ترامیم بھی تجویز کی ہیں تاکہ اس میں موجود کمی کوتاہی کا ازالہ اور قانون کا مؤثر نفاذ ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری تمام تر جدوجہد کا مقصد دراصل جہیز کا خاتمہ کرنا ہے۔
جواب دیں