پاکستان میں خواتین کی مختصر لیکن متحرک کمیونٹی کو کئی چیلنجز درپیش ہیں کہ جن میں مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہیں، کیریئر میں آگے بڑھنے کے مواقع کی کمی، جنسی ہراسگی کے خلاف پالیسی کی عدم موجودگی اور دیگر عام سہولیات کی عدم دستیابی نمایاں ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نیوز رومز کو ڈیزائن کرتے ہوئے وقت خواتین کے لیے علیحدہ ریسٹ رومز تک پر غور نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی خواتین کو دفتر سے گھر کے لیے سفری سہولت دی جاتی ہے۔
پاکستانی صحافی اور سوشل میڈیا کارکن سمیرہ اشرف راجپوت بتاتی ہیں کہ جب انہوں نے 2014ء میں بطور انٹرن اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا تو وہ جس شخص کے ماتحت تھیں، اس نے ابتدائی دنوں میں ہی انہیں ڈنر پر بلا لیا۔ اسے کیے گئے انکار کے بعد سے آج تک سمیرہ کی آزمائش کا سفر جاری ہے۔ بتاتی ہیں کہ
"ان تقریباً آٹھ سالوں میں میں نے دیکھا ہے کہ ہراساں کیے جانے کا واقعہ عموماً اپنے ہی ادارے میں پیش آتا ہے اور عام طور پر اپنے ہی مینیجرز اس حرکت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لیکن جب خواتین ایسے لوگوں کو روکتی ہیں اور انہیں انکار کرتی ہیں تو ان کے کیریئر پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور جب آواز اٹھاتی ہیں تو انہیں ساتھی ملازمین کی جانب سے بھی کوئی مدد نہیں ملتی۔”
سمیرہ کہتی ہیں کہ خواتین صحافیوں کو ایڈیٹرز اور سپر وائزرز کی جانب سے تعاون کی ضرورت ہے۔
"ہم چاہتے ہیں کہ ہم پر یقین کیا جائے۔ ہم خبری اداروں میں عملی اقدامات اٹھتے اور اداروں کے اندر ہراسگی کے کلچر کو ختم ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک پارلیمانی کمیٹی نے جرنلسٹ سیفٹی، سیکورٹی اینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2020ء کے نام سے ایک قانون تشکیل دیا ہے جس میں صحافیوں کی حفاظت، سلامتی اور تحفظ جیسے معاملات پر بات کی گئی ہے۔ اس میں کئی اہم قوانین ہیں لیکن صنفی معاملات کو خاطر میں نہیں لایا گیا۔”
فری لانس صحافی لائبہ زینب نے اپنے تجربات پیش کیے ہیں اور کہتی ہیں کہ دراصل ہراساں کیے جانے کے عمل کا آغاز صحافت کے تعلیمی اداروں سے ہی ہو جاتا ہے۔ بتاتی ہیں کہ
"میں اپنے پہلے سیمسٹر میں فیل ہو گئی تھی کیونکہ میں اپنے پروفیسر کو ‘انٹرٹین’ نہیں کر پائی تھی۔ پھر جب MS کیا تو اس میں بھی ایک استاد چیختے چلاتے، ذہنی استحصال کرتے اور کینہ و بغض رکھتے تھے۔ انہوں نے میرے اردو میڈیم کے پسِ منظر کی وجہ سے مجھے بہت تنگ کیا۔”
وہ مزید بتاتی ہیں کہ
"جب میں نے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تو ایک مرد رپورٹر نے مجھے جسمانی طور پر ہراساں کیا۔ میری شکایت پر بھی اسے محض وارننگ دی گئی اور وہ بدستور اسی ادارے میں کام کرتا رہا۔ گریجویشن کے بعد میں ایک مرتبہ پھر بے روزگار ہوگئی کیونکہ میں آواز اٹھاتی تھی اور ایسی کسی بھی حرکت پر رپورٹ کرتی تھی۔ بالآخر میں نے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم کا رخ کیا اور یہاں سے بلاشبہ بہت کچھ سیکھا لیکن یہاں گزارا گیا وقت بھیانک تھا۔ انہوں نے نہ صرف میری تحقیر کی بلکہ میرے کام کی اہمیت بھی اس حد تک گھٹائی کہ میں ہر روز آنسوؤں سے روتی تھی۔”
"میں نے کئی حقائق کا سامنا کیا، خواتین کا بڑے پیمانے پر استحصال اور انہیں حقوق سے محروم رکھنا، ان کے ساتھ نا انصافی اور ان کی انفرادی آزادی نہ ہونا، یہ ایسے عوامل ہیں جو رپورٹ نہیں کیے جاتے اور بسا اوقات ان سے جان بوجھ کر صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ پاکستانی خواتین کی آواز کو بری طرح دبایا جاتا ہے اور ان پر تشدد کو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے۔ زن بیزاری کا کلچر تمام ہی صنعتوں میں عام ہے اور صحافت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ میڈیا میں موجود خواتین کو عموماً نچلے عہدوں پر رکھا جاتا ہے، کم سے کم تنخواہ کے ساتھ۔ میرے تجربے کے مطابق میں نے پاکستانی ٹیلی وژن میڈیا پر کبھی کسی خاتون کو سینئر عہدے پر نہیں دیکھا۔
"پھر صنعت کے اندر مرد اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہیں، مثلاً جب مرد کسی عہدے پر کسی خاتون کی تقرری کی تجویز دیتے ہیں تو اس کے بدلے میں ان سے کچھ ‘فیور’ بھی چاہتے ہیں۔ میرے اپنے کیریئر میں آگے بڑھنے کا عمل ان کی ایسی ہی حرکتوں پر "ناں” کرنے کی وجہ سے متاثر ہوا۔ میں دفتر سے باہر کی پارٹیوں میں نہیں جاتی تھی۔ میں نے ڈنر کی دعوتیں ٹھکرائیں اور یوں میری ترقی رک گئی۔ میں زیادہ اہل اور تجربہ کار ہونے کے باوجود تنخواہ کے معاملے میں دفتر میں کام کرنے والے مردوں سے پیچھے رہ گئی۔ 2018ء میں میں نے ایک نجی ٹیلی وژن چینل جوائن کیا کہ جس کے پورے عملے کو تنخواہ دیر سے مل رہی تھی۔ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان مشکل ایام میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں۔ 2020ء میں جب وہ بالکل کنگال ہوگئے تو میں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بروقت ادائیگی کی جائے اور زچگی کی چھٹیوں، برابر تنخواہوں اور کارکردگی کے مطابق ترقی جیسے بنیادی حقوق دیے جائیں۔ میں نے ان کو بتایا کہ اس صورت حال میں بہت سی خواتین کے لیے کام کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ نتیجتاً مجھے خواتین کارکنوں کے حق میں آواز اٹھانے پر بنا تنخواہ کے چھٹیوں پر بھیج دیا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب کووِڈ-19 ہمیں ویسے ہی بری طرح متاثر کر رہا تھا لیکن مجھے خواتین صحافیوں کے حوالے سے ادارے کا ماحول بدلنے کے حق میں آواز اٹھانے پر نکال دیا گیا۔
"میں کئی دنوں تک صدمے کی کیفیت میں رہی، لیکن میں مظلوم کے حق میں آواز بلند کرنے سے باز نہیں آئی اور متعدد بین الاقوامی اداروں کے لیے فری لانس کام شروع کر دیا۔ جب جنوری 2021ء میں میں نے پاکستان میں marital rape پر ایک تحریر لکھی تو مجھے مردوں کی جانب سے جس ردِعمل کا سامنا کرنا پڑا، اس سے ظاہر ہو گیا کہ آن لائن صحافت میں بھی ہراساں کرنے اور دھمکانے کا عمل موجود ہے۔ مجھے دھمکیاں دی گئیں، جسمانی طور پر نقصان پہنچانے کی اور اس کے ذہن پر پڑنے والے اثرات مجھے اب بھی پریشان کرتے ہیں۔ صنفی بنیادوں پر آن لائن دنیا میں خواتین پر جو تشدد کیا جاتا ہے اس میں انفرادی زن بیزاروں سے لے کر جتھے کی صورت میں موجود نیٹ ورکس بلکہ ایسے افراد تک شامل ہیں جن کا کام غلط معلومات پھیلانا ہے اور وہ آزادئ صحافت اور خواتین کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں۔ "
ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (DRF) کی 2019ء کی رپورٹ کے مطابق سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کو ایک سال میں پاکستان میں 2023 شکایات موصول ہوئیں اور پتہ چلا کہ 70 فیصد خواتین کو اپنی زندگی کے دوران جنسی یا جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اس میں آن لائن تشدد شامل ہے۔ DRF کے تجزیے کے مطابق یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ خواتین کے خلاف آن لائن ہراسگی کووِڈ-19 کی وبا کے دوران مزید بڑھی ہے۔
ہراساں کیے جانے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ خواتین یا تو خود پر سینسر لگا لیتی ہیں یا پھر میڈیا کی فیلڈ ہی چھوڑ جاتی ہیں۔ اس لیے حکومت صحافت کے حوالے سے جو قوانین متعارف کروائے، انہیں خواتین کے حوالے سے مزید جامع بنانا چاہیے۔ ریاست، میڈیا کے اداروں، سول سوسائٹی اور پریس کلبوں کو بھی ایسا بنانے کی ضرورت ہے کہ خواتین کی شمولیت کے حوالے سے آواز اٹھانی چاہیے اور ایسی خواتین صحافیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھانے چاہئیں جنہیں ہراساں کیا گیا ہو یا ان کا استحصال کیا جا رہا ہو۔
Pingback: ایک سال میں 62 صحافیوں کا قتل، خواتین صحافیوں کو لاحق نئے خطرات - دی بلائنڈ سائڈ