مصر کا ٹک ٹاکر خواتین پر کریک ڈاؤن، دو انفلوئنسرز کو طویل سزائیں بھی سنا دیں

حالیہ چند سالوں کے دوران مصر ڈجیٹل ٹیکنالوجی کا مرکز بن گیا ہے اور ساتھ ساتھ مصر میں انٹرنیٹ پر سینسر کا نمبر ایک مقام بھی۔

لندن میں واقع تھنک ٹینک کیٹم ہاؤس کے تجزیہ کار ڈیوڈ بٹر کہتے ہیں کہ "کمیونی کیشنز اور ٹیکنالوجی مصری معیشت میں سب سے تیزی سے ابھرنے والے شعبے ہیں، جس میں حالیہ نمو اوسطاً 16 فیصد ہے۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ مصر کی ڈجیٹل معیشت کی تیزی سے ہوتی ترقی، مثلاً ٹیکس نظام، مالیاتی ٹیکنالوجی اور صحت عامہ کے شعبوں میں، اور ریاست کے تمام پہلوؤں پر سختی سے گرفت کرنے کی عمومی پالیسی کے درمیان نمایاں فرق نظر آتا ہے کہ جو آہنی ہاتھ کے ذریعے بسا اوقات ظالمانہ رویہ اختیار کرتی ہے خاص طور پر امن و امان قائم کرنے والے اداروں اور عدلیہ کی جانب سے۔

اس کی تازہ ترین مثال 23 سالہ مودہ الادہم اور 20 سالہ حنین حسام کی ہے کہ جنہیں "انسانی اسمگلنگ” کے الزام میں بالترتیب 6 اور 10 سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں اور ساتھ ہی 3 لاکھ مصری پونڈز کے جرمانے بھی (تقریباً 19 ہزار امریکی ڈالرز)۔ وڈیو شیئرنگ ایپ ‘لائیکی’ کے تین ملازمین عبد الحمید، محمد علا الدین اور احمد صالح عطیہ کو مودہ اور حنین کی مدد کرنے پر چھ سال قید کی سزا بھی دی گئی ہے۔

کُل ملا کر مودہ اور حنین کے انسٹاگرام، ٹوئٹر اور ٹک ٹاک پر 40 لاکھ سے زیادہ فالوورز ہیں۔ حکومت ان کی وڈیوز کی نگرانی کر رہی تھی، اس کے باوجود ان کا مواد غیر سیاسی تھا۔

مصر کے صدر عبد الفتاح سیسی نے 18 اگست 2018ء کو اینٹی سائبر اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کرائمز لا کی تصدیق کی تھی اور اس نے حکام کو مصری معاشرے کی اقدار اور خاندانی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کو سزا دینے کے زبردست اختیارات دیے۔

اس قانون کا مقصد سرکاری طور پر تو شدت پسند اور دہشت گرد تنظیموں سے لڑنا ہے کہ جو نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کرتی ہیں۔ لیکن یہ فوج اور پولیس کی نقل و حرکت کی معلومات پھیلانے پر پابندی بھی لگاتا ہے اور انفارمیشن سسٹمز کو ہیک کرنے کو جرم بھی قرار دیتا ہے۔ شق 7 تفتیش کرنے والے اداروں کو کسی بھی ایسی ویب سائٹ کو بند کرنے کا اختیار دیتی ہے کہ جو ان کے خیال میں شدت پسند نظریات کی ترویج کرتی ہے کہ جو ملک کی قومی سلامتی یا مصری معیشت کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

انٹرنیٹ اینڈ کمیونی کیشنز ٹیکنالوجی وژن وزارت مواصلات و انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جاری کیا جس کا مقصد مصر کو 2050ء تک مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ڈجیٹل معاشرہ بنانا ہے۔ دوسری سب سے بڑی مارکیٹ سعودی عرب ہے کہ جو ویسے ہی اختلافِ رائے کرنے والوں اور آن لائن کارکنوں کے ساتھ سخت رویہ برتنے کے لیے مشہور ہے۔

مصری ذرائع ابلاغ کے مطابق جب سے ٹک ٹاک اور لائیکی جیسی ایپس پر خواتین کے خلاف یہ سرکاری مہم شروع ہوئی ہے، بلاگرز اور سوشل میڈیا پر اثر و رسوخ رکھنے والوں (influencers) کے لیے حالات بدتر ہو چکے ہیں۔ ستمبر سے اب تک کم از کم 10 خواتین کو سزائیں دی جا چکی ہیں۔

مودہ اور حنین کو ستمبر میں سائبر کرائم کے قانون کی شق نمبر 22، 25 اور 27 کے تحت "خاندانی اصولوں اور مصری معاشرے کی اقدار کی خلاف ورزی” کا مرتکب پایا گیا تھا، لیکن اس فیصلے کے خلاف اپیل کامیاب ہونے کے بعد ان کا معاملہ قاہرہ کی فوجداری عدالت منتقل ہو گیا اور دونوں پر انسانی اسمگلنگ کے اضافی الزامات لگائے گئے۔

ایک وڈیو میں مودہ نے خواتین کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ لائیکی جیسے وڈیو پلیٹ فارمز کا رخ کریں اور صارفین کے ساتھ رابطہ کاری کے ذریعے اپنی وڈیوز سے کمائیں۔ وکلا کے مطابق یہ "مصری معاشرے کے اصولوں اور اقدار کے برعکس لڑکیوں کا استعمال ہے کہ جس کا مقصد مادّی فائدے سمیٹنا ہے۔”

ان سخت سزاؤں پر مصر میں انسانی حقو ق کی تنظیموں سے سخت احتجاج کیا ہے۔ مصر کی 9 غیر سرکاری انجمنوں (این جی اوز) نے ان سزاؤں کی مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ "خاندانی اقدار  کے غیر واضح تصور کو تمام شہریوں پر لاگو کرنا، سوشل میڈیا سائٹس کی نگرانی کرنا اور صارفین کو قید کی سزائیں دینا بند کرے۔”

حنین نے سکیورٹی اہلکاروں سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی لیکن وہ دھر لی گئیں، اس سے پہلے انہوں نے انسٹاگرام پر جذباتی قسم کے لائیو سیشن کیے۔ انہوں نے صدر سیسی سے مخاطب ہو کر مطالبہ کیا کہ وہ ان کی مدد کریں۔ یہ وڈیوز 35 لاکھ سے زیادہ مرتبہ دیکھی گئی ہیں۔ ان کا مطالبہ اور اس مقدمے کی بین الاقوامی سطح پر کوریج کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے علاوہ ان کے خاندانوں کی جانب سے کیے گئے مطالبے بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔

2 Pings & Trackbacks

  1. Pingback: مصر نے بالآخر خاتون صحافی سمیت کئی کارکن رہا کر دیے - دی بلائنڈ سائڈ

  2. Pingback: مصر کو خواتین کے خلاف ریاستی جبر کا خاتمہ کرنا ہوگا، کھلا خط - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے