کووِڈ، خواتین نے بچوں کی دیکھ بھال پر اضافی 173 گھنٹے لگائے، مرد صرف 59 گھنٹے

کووِڈ-19 کی وبا کے دوران زیادہ تر نوکری پیشہ افراد کو گھر سے کام کرنے میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن خواتین ملازمین کے لیے یہ بہت بڑا چیلنج تھا۔ جب لاک ڈاؤن کے دوران سب اپنے گھروں تک محدود رہ گئے تو خواتین کو ایک اضافی اور بہت بھاری ذمہ داری بھی سنبھالنی پڑی، یعنی بچوں کی دیکھ بھال۔ دنیا بھر میں اسکول اور تعلیمی ادارے بند ہو جانے کی وجہ سے ان کی ہمہ وقت گھر موجودگی نے والدین کی ذمہ داریوں میں بہت اضافہ کر دیا لیکن یہاں والد اور والدہ کے درمیان فرق اتنا زیادہ ہے کہ گزشتہ سال خواتین کو اپنے اضافی 173 گھنٹے بچوں پر صرف کرنا پڑے جبکہ مردوں نے صرف 59 گھنٹے یہ ذمہ داری نبھائی۔

سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تو یہ فرق مزید بڑھ جاتا ہے کہ جہاں خواتین مردوں کے مقابلے میں بچوں کی دیکھ بھال پر تین گُنا زیادہ وقت صرف کرتی ہیں۔ یہ وہ کام ہوتا ہے کہ جو کسی کو نظر بھی نہیں آتا اور اس کا انہیں کوئی معاوضہ بھی نہیں ملتا۔

تحقیق کہتی ہے کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے مجموعی طور پر ہمارا اندازہ ہے کہ اسکول کی بندش کے کُل 124 دنوں کو ملایا جائے تو یہ کُل 107 ارب گھنٹے بنتے ہیں اور پری اسکول کو بھی شامل کیا جائے تو مزید 16 ارب گھنٹوں کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہر بچے کو روزانہ پانچ گھنٹے اضافی توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت پڑی، جو 615 ارب گھنٹے کا بلا معاوضہ کام بنتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی دیکھ بھال میں 75 فیصد خواتین حصہ ڈالتی ہیں جبکہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی یہ شرح 65 فیصد سے زیادہ ہے۔ 15 سے 64 سال کی خواتین اوسطاً 173 اضافی گھنٹے اس کام پر صرف کرتی ہیں، جس کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا حالانکہ یہ ایک مہینے سے زیادہ کا کام بنتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مرد صرف 59 گھنٹے یہ کام انجام دیتے ہیں۔

سینٹر کے سینئر فیلو چارلس کینی کہتے ہیں کہ ہر سال، سال بہ سال، اربوں گھنٹے بلا معاوضہ کام پر صرف ہوتے ہیں، جن میں سے بہت بڑا حصہ خواتین کے کام کا ہے۔ ایسی دنیا نجانے کب دیکھنے کو ملے گی کہ جس میں اس طرح کے کاموں کا بوجھ صنفی بنیاد پر برابر تقسیم ہو۔

زیادہ تر ایسا بلا معاوضہ کام غریب ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں بچوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور مرد و خواتین کے درمیان بلا معاوضہ کام میں بڑا خلا بھی موجود ہے۔ پہلے بھارت کی بات کریں کہ جہاں جنوری اور اگست 2020ء کے درمیان 176 ارب گھنٹے بچوں کی دیکھ بھال پر صرف ہوئے اور خواتین کے اس کام میں لگنے والا وقت (360 گھنٹے) مردوں کے اوقات (33 گھنٹے) سے 10 گنا زیادہ ہے۔

اب ذرا وطنِ عزیز پاکستان کو بھی دیکھ لیں کہ جہاں  خواتین اضافی 390 گھنٹے بچوں کی دیکھ بھال پر لگانے پڑے  مردوں نے صرف 36 گھنٹے دیے،  یعنی خواتین کا حصہ 10 گُنا سے بھی زیادہ ہے۔

سینٹر فار گلوبل ڈیولپمنٹ کی تحقیق یونیسکو اور OECD کے اعداد و شمار کو استعمال میں لاتی ہے تاکہ گھر پر موجود بچوں کی تعداد اور وبا سے پہلے بچوں کی دیکھ بھال کے بلامعاوضہ کام پر مردوں اور عورت کے اوسط کام کا پتہ چلائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے