عاصمہ رانی قتل کیس، مرکزی ملزم کو سزائے موت

جنوری 2018ء میں کوہاٹ میں پیش آنے والے ایک واقعے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا کہ جہاں میڈیکل کی تیسرے سال کی طالبہ عاصمہ رانی کو محض رشتے سے انکار پر ایک شخص نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ عاصمہ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا کہ جہاں مرنے سے پہلے اس نے بتایا کہ مجاہد آفریدی نے اس پر گولیاں چلائیں۔ یہ وڈیو بہت وائرل ہوئی تھی اور پھر انصاف کے مطالبات بڑھتے ہی چلے گئے۔

آج جون 2021ء میں جا کر، یعنی تقریباً ساڑھے تین سال بعد، پشاور کی ایک عدالت نے مرکزی ملزم کو سزائے موت سنائی ہے۔ البتہ دیگر دو ملزمان کو بری کر دیا ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج اشفاق تاج نے یہ فیصلہ پشاور سینٹرل جیل میں سنایا کہ جہاں مجاہد آفریدی اور دیگر ملزمان قید ہیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں مجاہد آفریدی کو قتل کا مرتکب قرار دیا اور اس پر 3 لاکھ روپے جرمانہ بھی لگایا جبکہ 20 لاکھ روپے بطور زرِ تلافی ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ البتہ انہوں نے صادق اللہ آفریدی اور شاہزیب کو بری کرنے کا حکم دیا کہ جن پر اعانتِ جرم کے الزامات تھے۔

پولیس کے مطابق جنوری 2018ء میں عاصمہ چھٹیاں منانے کے لیے ایبٹ آباد سے کوہاٹ آئی تھی، جب مجاہد آفریدی نے صادق اللہ کے ساتھ مل کر عاصمہ پر فائرنگ کر دی تھی کیونکہ انہوں نے اس کے رشتے سے انکار کر دیا تھا۔ عاصمہ کو فوراً قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی، البتہ مرنے سے پہلے اس نے بتایا کہ فائرنگ مجاہد آفریدی نے کی تھی۔ عاصمہ کے بھائی محمد عمران کے مطابق مجاہد پہلے سے شادی شدہ تھا، اسی بنیاد پر ہمارے خاندان نے اس کا بھیجا گیا رشتہ ٹھکرا دیا تھا۔ لیکن اس نے ہماری بہن کو قتل کر دیا۔

اس قتل کے بعد مجاہد متحدہ عرب امارات بھاگ گیا اور حکومتِ پاکستان کی سفارش پر انٹرپول نے اس کے ریڈ وارنٹ جاری کیے اور مارچ میں اسے گرفتار کر کے واپس پاکستان لایا گیا۔

بعد ازاں پشاور ہائی کورٹ نے مقتولہ کے بھائی عمران کی درخواست پر مقدمہ کوہاٹ سے پشاور منتقل کرنے کا حکم دیا کیونکہ محمد عمران کا کہنا تھا کہ ملزم کا تعلق کوہاٹ کے با اثر خاندان سے ہے اور ان کے لیے یہاں رہ کر مقدمہ لڑنا مشکل ہے۔

عاصمہ رانی کے والد غلام دستگیر کہتے ہیں کہ ہم عدالتی فیصلے نے مطمئن ہیں لیکن اس قتل میں مدد دینے والے باقی دو ملزمان کو بھی سزا ملنی چاہیے تھی۔ ان لوگوں کی اس حرکت سے میری بیٹی کے خواب ٹوٹے اور خاندان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے