یونان میں چار پاکستانیوں کی جانب سے ایک حاملہ خاتون کو اغوا کر کے اس کے ساتھ ریپ کرنے کا معاملہ منظرِ عام پر آیا ہے۔
پولیس اب تک 19، 21 اور 27 سال کے تین پاکستانیوں کو گرفتار کر چکی ہے، جبکہ ایک ملزم ابھی مفرور ہے۔ ان لوگوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اومونیا سے ایک 25 سالہ خاتون کو اغوا کیا اور اسے بذریعہ ٹیکسی ایتھنز کے مرکزی علاقے کے ایک زیرِ زمین اپارٹمنٹ لایا گیا، جہاں اس کے ساتھ ریپ کیا گیا۔
مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق خاتون، جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، نے پولیس کو بتایا ہے کہ وہ تین ماہ کی حاملہ ہیں۔
فی الحال یہ واضح نہیں کہ ٹیکسی ڈرائیور ان مبینہ چار حملہ آوروں میں شامل تھا یا نہیں، البتہ میڈیا کا یہ کہنا ہے کہ یہ چاروں پاکستانی ہیں۔
بہرحال، خاتون ان کے چنگل سے فرار ہونے کے بعد تھانے پہنچیں اور بعد ازاں چار میں سے تین افراد کی گرفتاری عمل میں آئی۔
یاد رہے کہ 2012ء میں یونان کے جزیرہ پاروس میں ایک نو عمر لڑکی پر بہیمانہ تشدد اور ریپ کے واقعے پر ملک بھر میں زبردست ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ یہ لڑکی شدید زخمی حالت میں بے ہوش پائی گئی تھی اور اس کے سر پر لگی ہوئی چوٹوں نے اس کے دماغ کو مستقل نقصان پہنچایا۔
بعد ازاں حملہ آور کی شناخت احمد وقاص کے نام سے ہوئی، جو ایک غیر قانونی پاکستانی مہاجر تھا۔ اسے ایتھنز سے گرفتار کیا گیا اور بعد ازاں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس حملے کے بعد یونانی دارالحکومت میں غیر قانونی مہاجرین کے خلاف زبردست کریک ڈاؤن کا آغاز ہوا اور پولیس نے صرف 72 گھنٹوں میں تقریباً 7,000 افراد کو گرفتار کیا۔ یہی نہیں بلکہ یونان میں مسلمانوں کا جینا بھی حرام ہو گیا۔ ان کے خلاف نسل پرستانہ حملوں میں اضافہ ہوا یہاں تک کہ ایتھنز میں چند موٹر سائیکل سواروں نے ایک 19 سالہ عراقی لڑکی کا قتل بھی کر دیا۔ انہی حملہ آوروں نے اس سے پہلے دو مزید مسلمان خواتین کو بھی نشانہ بنایا لیکن وہ بچ گئی تھیں۔
یونان میں پُر تشدد جرائم کی شرح یورپ کے دوسرے بڑے ملکوں کے مقابلے میں ذرا کم ہے اور اسے تنہا خواتین کے لیے بھی محفوظ ترین مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔
جواب دیں