گزشتہ سال کے اواخر میں کراچی کے علاقے میٹروول میں سعدیہ رضوان گھر گھر بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں۔ وہ ہر روز درجنوں گھروں میں جاتیں اور صرف 10 دن میں انہوں نے 350 گھرانوں میں بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے کی ویکسین پہنچائی۔ اس وقت پاکستان بھر میں کووِڈ-19 بری طرح پھیل رہا تھا اور سعدیہ پولیو بچاؤ مہم کے دوران درپیش خطرے سے اچھی طرح واقف تھیں ، جن میں چند خاندانوں کی جانب سے ماسک نہ پہننے اور سماجی فاصلہ اختیار نہ کرنے سے درپیش خطرات شامل تھے۔ لیکن اس علاقے کی عرصے سے رہائشی ہونے کی وجہ سے انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ پولیو کو نظر انداز کرنے کے کون سے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
سعدیہ ان ایک لاکھ خواتین اہلکاروں میں سے ایک ہیں کہ جنہیں "لیڈی ہیلتھ ورکر” کہا جاتا ہے۔ یہ پولیو کے خاتمے کی جنگ میں صفِ اول کی کارکن ہیں۔ اپنی برادریوں میں یہ ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات ختم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ خواتین ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے کے ان حصوں اور ان گھرانوں تک بھی رسائی حاصل کرتی ہیں کہ جو عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کووِڈ-19 کے خلاف دنیا بھر کے اربوں افراد کو ویکسین دینے کے غیر معمولی ہدف کی جنب قدم بڑا رہی ہیں، پولیو سے حاصل ہونے والا سبق بالکل واضح ہے کہ قدامت پسند علاقوں میں ویکسین مہم کی کامیابی کا انحصار خواتین پر ہوگا۔
امراض کے خاتمے میں انسانوں کا کردار کچھ خاص نہیں ہے۔ اب تک صرف ایک مرض چیچک ہی کا مکمل خاتمہ کیا جا سکا ہے۔ لیکن 1988ء سے شروع ہونے والے ویکسین پروگرام کی بدولت پولیو بھی 99 فیصد ختم ہو چکا ہے، جو ایسی وائرل بیماری ہے جو بچوں کو بری طرح متاثر کرتی ہے، ان کے اعصابی نظام کو تباہ کر دیتی ہے اور وہ اس وائرس کے ہاتھوں زندگی بھر کی معذوری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پولیو کے خلاف کامیابی میں جو 1 فیصد حصہ باقی ہے، وہ پاکستان اور افغانستان کا ہے کہ جہاں پولیو کے خاتمے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں سماجی اور مذہبی رکاوٹیں، ویکسین کی فراہمی میں درپیش چیلنج اور حکومت اور غیر سرکاری اداروں کے مابین کمزور شراکت داری شامل ہیں۔
کووِڈ-19 نے اس صورت حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ وبا پھیلنے کے بعد عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا بھر میں پولیو سے بچاؤ کی مہمات روک دیں، یوں ایک اندازے کے مطابق 2020ء میں 8 کروڑ بچوں کو ویکسین نہیں دی جا سکی۔ اگست میں پاکستان میں سست روی سے پولیو ویکسین کا عمل دوبارہ شروع ہوا لیکن تب تک بہت کچھ ضائع ہو چکا تھا۔ 2020ء کے اوائل میں ملک کے 74 فیصد نکاسی آب کے نمونوں میں پولیو وائرس کے ٹیسٹ مثبت آئے، جو 2018ء کے اوائل میں صرف 13 فیصد تھے۔
اگر پاکستان کبھی پولیو کے خاتمے میں کامیاب ہوا تو اس کا سہرا لیڈی ہیلتھ ورکرز کے سر ہوگا۔ ڈبلیو ایچ او، روٹری انٹرنیشنل اور حکومتِ پاکستان مل کر پولیو ویکسین کی مہم چلاتی ہیں، لیکن درحقیقت یہ سعدیہ رضوان جیسی خواتین ہیں جو اس ویکسین کو ہر گھر تک پہنچانے کی ذمہ داری سنبھالتی ہیں۔ ان کا کام انتہائی سخت محنت کا ہے۔ وہ گھروں میں جاتی ہیں، نجی معاملات پر بات کرتی ہیں اور بچوں کو ویکسین لگوانے کے فوائد پر خاندانوں کو قائل کرتی ہیں۔ قدامت پسند شمال مغربی علاقوں میں کہ جہاں غلط معلومات کا پھیلاؤ اور ویکسین کے حوالے سے جھجک عام ہے، یہ کام خواتین کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔
ویکسین کے حوالے سے ہچکچاہٹ کی جڑیں زیادہ تر قدامت پسند طبقات میں ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے امریکا میں قدامت پسند مسیحی رہنما ویکسین کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں، ویسے ہی پاکستان میں امام اکثر ویکسین کی راہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والی طیبہ گل نماز جمعہ کے بعد صحت کے حوالے سے سیمینار کروانے کے لیے اماموں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں جس میں وہ اور ان کی ٹیم غلط فہمیاں دور کرتے ہوئے والدین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ بچوں کو ویکسین پلائیں۔
لیکن تمام مذہبی رہنما خواتین پولیو کارکنان کا خیر مقدم نہیں کرتے بلکہ ہیلتھ ورکرز کے لیے حالات عموماً کشیدہ ہی رہتے ہیں۔ طیبہ اور سعدیہ جیسی چند خواتین ہیلتھ ورکرز مہمات کے دوران جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں جبکہ کئی کارکنان خطرے کی زد میں رہتی ہیں۔ لیکن کیونکہ ویکسین مخالفت میں مذہبی جنونی سب سے آگے ہیں، اس لیے ویکسین مہمات کی کامیابی اور کارکنوں کی حفاظت کے لیے اماموں کے ساتھ مل کر کام کرنا بہت ضروری ہے۔
صحت کے منصوبوں میں خواتین کو شامل کرنے کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ روٹری انٹرنیشنل اور حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعاون سے ویکسین لگانے والی خواتین کی تربیت کرنے والی سعدیہ شکیل کہتی ہیں کہ یہ خواتین اپنے گھرانوں کا مالی سہارا بنتی ہیں اور اپنی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے اشاریہ برائے صنفی مساوات کے مطابق پاکستان دنیا کے 162 ممالک میں 135 ویں نمبر پر ہے اور یہاں خواتین کو روزگار کے اتنے مواقع حاصل نہیں ہیں۔ ویکسین پروگرام خواتین کو روزگار، رقم، آزادی اور مقامی برادری میں فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کا انوکھا موقع فراہم کرتا ہے۔
طیبہ گل نے کہا کہ "مردوں کے بغیر ہماری معاشرتی یا سماجی کوئی نقل و حرکت نہیں ہوتی۔” پاکستان میں اکثر خواتین کو کام کرنے کے لیے بھی اجازت کی ضرورت ہوتی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں صرف 14 فیصد بالغ خواتین افرادی قوت کا حصہ ہے جبکہ مردوں میں یہ شرح 60 فیصد ہے۔ اس لیے لیڈی ہیلتھ ورکر بننے والی خواتین صرف ذاتی طور پر ہی خود مختار نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اپنی برادری کی دیگر خواتین کو بھی متاثر کرتی ہیں کہ وہ اپنے گھرانوں میں فیصلہ ساز بنیں اور اپنے بچوں کی صحت اور بہبود کے لیے فیصلہ کرنے کی ہمت کریں۔
سڑکوں پر چلتے پھرتے اور دروازے بجاتے ہوئے یہ خاتون ویکسین کارکن محض پولیو ہی کے حوالے سے نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر معاشرے کی دیگر کئی ضروریات سے بھی کافی حد تک آگاہ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف قسم کی سرگرمیوں کا حصہ بن چکی ہیں، مثلاً ہیلتھ کیمپ کا انعقاد، واٹر فلٹریشن کے سامان کا حصول اور ٹائیفائیڈ پھیلنے پر ردِ عمل۔ مقامی برادریوں میں یہ خواتین جانتی ہیں کہ جب تک صحت کے بنیادی عوامل مثلاً معاشی استحکام اور ماحولیاتی تحفظ پر کام نہیں کیا جاتا، ویکسین لگانے کی مہمات کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ پاکستان کے ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق جن علاقوں میں خواتین ہیلتھ ورکرز کام کر رہی ہیں وہاں صحت کے دیگر معاملات بھی دیگر علاقوں سے بہتر ہیں، مثلاً خاندانی منصوبہ بندی، نو مولود بچے کی دیکھ بھال اور حفاظتی ٹیکے لگوانا وغیرہ۔
جب گزشتہ سال مئی میں کووِڈ-19 پاکستان میں قدم جمانے لگا تو یہ خواتین ہیلتھ ورکرز ہی تھیں جنہوں نے مقامی برادریوں میں ماسک کی تقسیم، سماجی فاصلہ اختیار کرنے اور ہاتھ دھونے کی ترغیب کی مہم چلائی۔ طیبہ گل اور ان جیسی خواتین ہیلتھ ورکرز کے مطابق وہ کووِڈ-19 کی ویکسین کی تقسیم میں بھی نمایاں کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں، البتہ ابھی تک ایسے کسی منصوبے کا سرکاری اعلان نہیں کیا گیا۔
بلاشبہ لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام خامیوں سے پاک نہیں ہے۔ خواتین کو کم تنخواہیں دی جاتی ہیں، انہیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور حکومت کی مدد بھی شاملِ حامل نہیں رہتی۔ لیکن ویکسین کی مؤثر انداز میں تقسیم کی بات آتی ہے تو ان کے پاس دنیا بھر کو سکھانے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اب جبکہ کووِڈ-19 کو آئے ہوئے ڈیڑھ سال ہونے والا ہے، دنیا بھر میں اب تک دو ارب ویکسین ڈوز بھی نہیں لگائے جا سکے، یعنی ہر چار انسانوں کے لیے صرف 1 ٹیکا۔ ان میں سے 85 فیصد ڈوز زیادہ اور اوسط آمدنی رکھنے والے ممالک میں لگائے گئے ہیں، البتہ کم آمدنی والے ممالک کو صرف 0.3 فیصد ملا ہے۔ یہ عدم مساوات آئندہ سالوں میں بھی برقرار رہے گی، بلکہ ترقی پذیر دنیا میں ویکسین لگانے کی شرح میں اضافے کے حوالے سے بہت کم ہی امیدیں ہیں۔
امریکا اور دوسرے ممالک میں بھی کہ جہاں ویکسین لگوانے کی شرح زیادہ ہے، پاکستان جیسی خواتین ویکسین کارکن کی موجودگی مقامی برادریوں میں ویکسین کے حوالے سے جھجک کے خاتمے ، صحت کے نظام تک رسائی میں مشکل سے دوچار افراد کی مدد میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ یہ کوئی ہوائی بات نہیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے مطابق دنیا بھر میں وبا سے پہلے بھی 1.8 کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کی کمی تھی۔ پاکستان کے لیڈی ہیلتھ ورکر پروگرام کی کامیابی تجویز کرتی ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کا ممکنہ راستہ یہ ہو سکتا ہے: خواتین پر سرمایہ کاری کریں تاکہ وہ مقامی برادریوں کی صحت کے لیے محنت کر سکیں۔
جواب دیں