گزشتہ سال موسمِ گرما میں محمد یمانی کو یہ خبر سن کر سخت دھچکا پہنچا کہ اُس 17 سالہ لڑکی نے خود کشی کر لی کہ جو اپنے سابق بوائے فرینڈ کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے خوف کی وجہ سے اُن کے پاس مدد کے لیے آئی تھی۔
35 سالہ سماجی کارکن یمانی فیس بک کے ذریعے جنسی زیادتی، بلیک میلنگ اور نجی اور حساس نوعیت کی تصاویر یا وڈیوز تقسیم کرنے کی دھمکی دینے کے واقعات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جب اُس لڑکی نے انہیں پیغام بھیجا تو انہوں نے اسے پولیس کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ لیکن اگلے ہی دن انہیں خود کشی کی خبر مل گئی کیونکہ بلیک میلر نے وہ تصویریں اس کے والد کو بھیج دی تھیں۔ جب یمانی نے اس لڑکے کے خلاف قانونی کار روائی کرنے کے لیے گھر والوں سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "ہمیں مزید بدنام نہیں ہونا، لڑکی ویسے ہی مر چکی ہے۔”
تب یمانی نے فیصلہ کیا کہ وہ اب کسی لڑکی کو اس انجام تک نہیں پہنچنے دیں گے۔ جون 2020ء میں انہوں نے فیس بک پر ‘قاوم‘ یعنی مزاحمت نامی ایک پیج اور گروپ بنایا جو جنسی بلیک میلنگ سے متاثرہ خواتین کی مدد کرتا ہے۔ آج اس گروپ کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ ممبرز ہیں۔
قاوم کا نیٹ ورک 200 رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ خواتین رضاکار فیس بک گروپس چلاتی ہیں اور متاثرہ افراد کے پیغامات کا جواب دیتی ہیں جبکہ دیگر رضاکار بلیک میل کرنے والوں، اُن کے اہلِ خانہ، دفتری ساتھیوں اور مالکان کی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔
جب رضاکاروں کو کسی واقعے کی اطلاع ملتی ہے تو وہ بلیک میلر سے آن لائن رابطہ کرتے ہیں اور اسے کہتے ہیں کہ وہ اپنے پاس موجود مذکورہ تمام مواد ڈیلیٹ کرے، اسے خبردار کیا جاتا ہے کہ اس کی ان حرکتوں کے کیا نتائج نکل سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر دھمکاتے بھی ہیں کہ اس کی حرکتوں کے بارے میں اس کے گھر والوں، دوستوں اور دفتری ساتھیوں کو بتایا جائے گا۔ پھر بلیک میلر کو کہا جاتا ہے کہ وہ تمام مواد ڈیلیٹ کرے، اس عمل کی وڈیو بنائے اور پھر اسے قاوم کو بھیجے اور ساتھ ہی متاثرہ لڑکی سے معافی مانگے۔
یمانی کہتے ہیں کہ جب بلیک میلر کو پتہ چلتا ہے کہ وہ جسے شکار بنانے چلا ہے، وہ اکیلی نہیں تو اسے جواب دینا پڑتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اس وقت تک جواب نہیں دیتے جب تک ہم انہیں بے نقاب کرنے کی دھمکی نہیں دیتے۔ "کبھی کبھی ہم بلیک میلر سے ملنے کے لیے اپنے رضاکاروں کو بھیجے ہیں۔ ہماری کوشش ہوتے ہیں کہ ہمارے رضا کار اسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں، جہاں بلیک میلر مقیم ہے تاکہ اس پر اضافی دباؤ پڑے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں پولیس تک رسائی حاصل کرنا پڑی ہو اور ایسا تب ہوتا ہے جب بلیک میلر ہمارے ہتھے نہیں چڑھتا۔”
گروپ کو روزانہ تقریباً 500 شکایات ملتی ہیں، جن میں 200شکایات ایک ہفتے میں حل کر لی جاتی ہیں۔ یمانی کے مطابق اس میں "چند گھنٹے سے لے کر ایک ہفتہ تک لگ جاتا ہے اور پھر بلیک میلر اپنی حرکتوں سے باز آ جاتا ہے۔”
راندا (فرضی نام) اُن خواتین میں شامل ہیں کہ جنہیں ‘قاوم’ نے بچایا۔ 29 سالہ خاتون کا معاملہ حل ہونے میں تین دن لگے، جنہیں ان کے بوائے فرینڈ نے دھمکایا تھا کہ اگر وہ اس سے تعلق توڑ ے گی تو وہ اس کی معیوب تصاویر سامنے لے آئے گا۔
گو کہ مصر میں حال ہی میں جنسی تشدد، اور بلیک میلنگ، کا سامنا کرنے والے کی شناخت چھپانے کا قانون منظور ہوا ہے تاکہ خواتین ایسی صورتِ حال میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رخ کریں۔ باوجود اس کے راندا پولیس کے پاس جانے سے گھبرا رہی تھیں۔
مصری وکیل عزیزہ طویل کہتی ہیں کہ راندا کے خدشات بالکل حق پر مبنی ہیں۔ "کئی خواتین صرف اس خوف کی وجہ سے پولیس سے رابطہ نہیں کرتیں کہ کہیں وہ ان کے خاندان کو آگاہ نہ کر دے۔ پھر ملزم کے خاندان اور وکیلِ صفائی کے ہاتھوں بدنام کیے جانے کا ڈر اور قانونی کار روائی کا طول پکڑ جانا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اگر لڑکی کی عمر 18 سال سے کم ہو تو اسے لازماً اپنے قانونی سرپرست کے ساتھ ہی تھانے آنا پڑے گا۔ یعنی ایسے معاملات میں نو عمر لڑکیوں کے پولیس تک پہنچنے کا تو راستہ ہی بند ہے کیونکہ کوئی لڑکی ایسے معاملات میں والدین کو نہیں بتاتی کیونکہ اسے شدید ردِ عمل کا خوف ہوتا ہے۔
وکیل یاسر سعد کا کہنا ہے کہ گو کہ مصری قانون ایسے واقعات میں خواتین کو تحفظ دیتا ہے اور اس عمل کے مرتکب افراد کو جرمانہ، قید یا دونوں سزائیں دیتا ہے لیکن اس قانون کا نفاذ اور پولیس کو شکایت کرنے کا طریقِ کار دونوں کئی مسائل کی جڑ ہیں۔ پرچہ کٹوانے سے لے کر تحقیقات کے آغاز تک کا جو عرصہ ہے وہ بلیک میلر کو وقت دینا ہے کہ وہ بدستور دھمکاتا رہے۔ اس کے علاوہ تھانوں میں ‘مردانہ کلچر’ بھی خواتین کی حوصلہ شکنی کرتا ہے کہ وہ ایسے معاملات میں ان کا رخ نہ کریں۔
30 سالہ نورہان (فرضی نام) کا تعلق جنوبی مصر کے علاقے اسیوط سے ہے۔ گزشتہ اکتوبر میں اپنے منگیتر کے خلاف پرچہ کٹوانے سے لے کر تفتیش کے باضابطہ آغاز تک 40 دن لگ گئی۔ وکیل عزیزہ طویل کہتی ہیں کہ یہ دورانیہ کتنا ہوگا؟ اس کا تعلق پولیس ملزم کی ڈیوائس کا آئی پی ایڈریس معلوم کرنے اور ضروری تفتیش کرنے پر منحصر ہے۔
گو کہ نورہان کے معاملے میں ان کے منگیتر نے ہاتھ کھینچ لیے اور معاملہ بخیر و خوبی انجام تک پہنچا، لیکن نورہان کہتی ہیں کہ اس عرصے میں انہیں جن دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، اس دوران ان کا قتل بھی ہو سکتا تھا۔
جنوبی مصر میں قدامت پسندی زیادہ ہے اور یہ علاقہ غیرت کے نام قتل کی وجہ سے بھی معروف ہے۔ یہاں تک کہ کسی خاتون کے طرزِ عمل کو بھی غیر اخلاقی قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔
محمد یمانی کہتے ہیں کہ ‘قاوم’ کو مسئلہ تب ہوتا ہے جب بلیک میلر کا پتہ نہ ہو۔ "چند خواتین اپنے فونز میں سے سب کچھ ڈیلیٹ کر کے اسے بیچ دیتی ہیں، لیکن انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ نیا مالک چند پروگرامز کی مدد سے اس میں سے ڈیلیٹ کیا گیا مواد بھی نکال سکتا ہے۔ اس صورت میں انہیں ایسے افراد کی جانب سے بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ جانتی تک نہیں۔ اس صورت میں ہم متاثرہ خاتون کو براہِ راست اور فوراً پولیس سے رابطہ کرنے کا کہتے ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ اس کے علاوہ ہم ان معاملات میں بھی ہاتھ نہیں ڈالتے کہ جہاں بدمعاش گروہ شامل ہوں۔
شمال مشرقی قاہرہ کی جامعہ زقازیق میں نفسیات کے استاد احمد عبد اللہ کہتے ہیں کہ کئی عرب ممالک میں قانونی راہ اختیار کرنے کے بجائے روایتی طریقوں سے تنازعات کو حل کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ "ہر مظلوم چاہتا ہے کہ جس مواد کے ذریعے اسے دھمکایا جا رہا ہے وہ بغیر مسئلے کے ڈیلیٹ ہو جائے۔ اگر یہ غیر رسمی طریقے کارگر ہوتے ہیں تو انہیں ضرور آزمانا چاہیے۔”
Pingback: سوشل میڈیا نفرت انگیزی اور زن بیزاری کا گڑھ، انسٹاگرام کی حالت بد ترین - دی بلائنڈ سائڈ