پاکستان، افرادی قوت میں خواتین کی نمائندگی تشویش ناک حد تک کم

گزشتہ 20 سال سے پاکستان کے شہری علاقوں میں افرادی قوت میں خواتین کی تعداد 10 فیصد کے لگ بھگ ہی ہے، جو دنیا میں کم ترین شرح میں سے ایک ہے۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں پایا گیا ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ خواتین کو جہاں افرادی قوت میں شامل ہونے اور اپنی جگہ برقرار رہنے میں مشکلات کا سامنا ہے، وہیں خواتین میں تعلیم کی شرح کم ہونا بھی ان کے لیے امکانات کو محدود کر رہا ہے۔

روزگار کے مواقع کے حوالے سے خواتین میں جہاں علم کی کمی ہے،  وہیں معاشرے کی روایات کی وجہ سے ان کا عزم  و حوصلہ بھی کم ہے۔ کئی خواتین اپنے تحفظ کے حوالے سے درپیش خدشات یا مالی مشکلات کی وجہ سے تعلیم چھوڑ دیتی ہیں جبکہ انہیں ملازمت کے بجائے گھر چلانے کے لیے بھی خاندان کے دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔  جبکہ جو خواتین برسرِ روزگار ہیں انہیں بھی مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہوں اور ملازمت کے ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریوں کے بوجھ کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ البتہ سروے میں شامل کئی خواتین نے اپنی بیٹیوں کے حوالے سے اس عزم کا اظہار کیا کہ اگر ان کی خواہش ہو تو وہ تعلیم مکمل کرنے اور کام کرنے کی حمایت کریں گی۔

اس سروے کی بیناد پر ورلڈ بینک نے بعد ازاں ایک تفصیلی سروے کیا، جس میں خیبر پختونخوا کے شہر پشاور کا احاطہ کیا گیا، یعنی ایسا صوبہ جہاں قبائلی روایات کی جڑیں گہری ہیں خواتین کی معاشی خود مختاری کو کئی چیلنجز درپیش ہیں۔ ‘پاکستان لیبر فورس سروے’ سے تقابل کرتے ہوئے پشاور سروے کے نتائج نے ظاہر کیا کہ افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کو 9.4 سے 13.4 فیصد تک پہنچایا جا سکتا ہے اور اگر گھریلو استعمال کے لیے زرعی مصنوعات کی پیداوار کو بھی شامل کیا جائے تو یہ شرح 15.5 فیصد تک جا سکتی ہے۔

یعنی گو کہ خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کا اندازہ کم لگایا گیا، لیکن یہ پھر بھی علاقائی اور بین الاقوامی معیارات سے کہیں پیچھے ہے۔ اس کی وجہ پیچیدہ ہے، کیونکہ اس میں سماجی اور ثقافتی پابندیاں، صنفی بنیاد پر خواتین کے کردار کو محدود کرنا اور ان کے ساتھ جڑا ‘عزت’ کا تاثر ہے۔

خواتین کے ساتھ برتاؤ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اور ان کی عزت کے لیے کئی مرد ان کے گھر سے نکلنے کو محدود کرتے ہیں اور اگر نکلنے دیا بھی جاتا ہے  تو ان کی نگرانی اور حفاظت کی جاتی ہے۔ اس لیے خواتین ایسا کام کرنا چاہتی ہیں جسے وہ گھر پر بیٹھ کر انجام دے سکیں۔ کون سا کام کرنا ہے؟ اس کے انتخاب میں بھی روایتی خیالات آڑے آتے ہیں اور اس دائرے سے باہر دستیاب روزگار کے مواقع ان تک پہنچنے کی راہ  میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان رویّوں کی وجہ سے صنفی عدم مساوات کی جڑیں بہت گہری ہیں، یہاں تک کہ خود خواتین نے بھی انہیں قبول کر رکھا ہے۔

خواتین کے افرادی قوت کا حصہ بننے کی راہ میں تعلیم کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پشاور میں کام کی عمر رکھنے والی خواتین میں تعلیم کی شرح بھی حیران کن حد تک کم ہے۔ 54 فیصد نے تو پرائمری تعلیم تک مکمل نہیں کی اور صرف 29 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہوں نے پرائمری سے زیادہ تعلیم حاصل کی ہے۔ یوں خواتین کی ملازمتوں تک رسائی محدود ہو جاتی ہے، یہاں تک ان مواقع تک بھی کہ جنہیں عموماً معاشرے میں قبول کیا جاتا ہے، مثلاً تعلیم اور صحت کے شعبے میں سرکاری ملازمتوں تک بھی۔

اس کے علاوہ فیصلے کا اختیار نہ ہونے سے بھی خواتین کو روزگار کے مواقع تک رسائی نہیں ملتی۔ اس حوالے سے سروے میں پشاور کی کام کی عمر رکھنے والی 85 فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں خواتین کو ملازمت کرنی چاہیے، لیکن صرف 7.6 فیصد ہی ایسی تھی جنہیں گھر سے باہر کام کرنے کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ زیادہ تر خواتین کا کہنا ہے کہ حتمی فیصلہ ان کے شوہر یا والد کریں گے کہ آیا وہ کام کر سکتی ہیں یا نہیں۔

خیبر پختونخوا میں مردوں اور خواتین کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ خاتون کا اصل "مقام” اس کا گھر ہے۔  خواتین کا زیادہ تر وقت گھر والوں کی خدمت کے کام میں گزرتا ہے۔ مرد گھریلو کاموں میں بالکل ہاتھ نہیں بٹاتے، جبکہ خاتون اوسطاً 5.3 گھنٹے اس طرح کے کاموں پر صرف کرتی ہیں۔

ایک بہت اہم پہلو باہر کا ماحول ہے جو خواتین کو خود مختار بنانے کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ سروے کے مطابق پشاور میں 30 فیصد خواتین کو گھر سے نکلنے کے بعد کسی نہ کسی قسم کی جنسی ہراسگی کا تجربہ اٹھانا پڑا ہے۔ ہراساں کیے جانے کا یہی خوف ان کے گھر سے باہر نکلنے کی راہ میں آڑے آتا ہے۔

ملازمتوں کے حوالے سے معلومات کی کمی بھی افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کی کمی کی ایک وجہ ہے۔ زیادہ تر خواتین جو کام کرنا چاہتی ہیں، اسے تلاش کرنے کے طریقے نہیں جانتیں۔ اس میں روزگار کے مواقع تلاش کرنے اور کس قسم کی ملازمت میں اچھی آمدنی کے مواقع ہیں، دونوں قسم کی معلومات شامل ہیں۔ اگر ان رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جائے تو خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت 13.4 سے 20.4 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔

ان مشکل چیلنجز کے باوجود پشاور میں افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت سے اس سروے کو بنیاد بناتے ہوئے کئی فیصلے کیے جا سکتے ہیں۔ خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم اور ان کی مہارت میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری، انہیں انٹریپرینیورشپ کی سہولیات کی فراہمی، محفوظ ٹرانسپورٹ اور عوامی مقامات کے علاوہ کام کی جگہ پر بہتر ماحول پیش کرنا بہت اہم رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مؤثر قانون سازی اور کارکنوں کے حقوق کے تحفظ  کے ذریعے شہری علاقوں میں خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

One Ping

  1. Pingback: کووِڈ-19، بھارت کی خواتین پر ملازمت کے دروازے سالہا سال کے لیے بند - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے