صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، لیکن آج سے پہلے وہاں خواتین کے لیے کوئی پولیس اسٹیشن موجود نہیں تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بلوچستان میں پسماندگی کا کیا عالم ہے۔ ایک ایسے صوبے میں کہ جہاں خواتین کی شرحِ خواندگی یعنی تعلیم یافتہ ہونے کی شرح 27 فیصد سے بھی کم ہے، وہاں پر ان کے تحفظ کے لیے ایک تھانہ تک موجود نہیں تھا۔
کوئٹہ میں 19 خواتین افسران پر مشتمل ایک ویمنز پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے، جس کے بعد امید ہے کہ صوبے کی خواتین کو انصاف تک رسائی حاصل ہوگی۔
حکام کو بھی توقع ہے کہ اس تھانے کی بدولت خواتین کو پولیس کی تمام خدمات تک رسائی حاصل ہوگی اور انہیں کسی بھی قسم کی شکایت کے لیے تھانے کا رخ کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوگی، جس میں گھریلو تشدد اور جنسی استحصال بھی شامل ہے۔
تھانے کا افتتاح آئی جی بلوچستان محمد طاہر رائے نے کیا، جن کا کہنا تھا کہ اب خواتین بلا جھجک کسی بھی وقت تھانے آ سکتی ہیں، ان کا خیر مقدم کیا جائے گا اور عملہ ان کے ساتھ بہترین رویہ اختیار کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس تھانے میں نصب جدید ڈجیٹل سسٹم اور خواتین عملے کی تربیت کی بدولت اب ویمنز پولیس اسٹیشن صوبے کے تمام تھانوں سے براہِ راست منسلک ہے اور بلوچستان کے ہر علاقے سے یہاں پولیس کو شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔
ویمنز پولیس اسٹیشن کی ایس ایچ او زرغونہ ترین کہتی ہیں کہ یہ تھانہ بلوچستان کی خواتین کے لیے ایک سنگِ میل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ثقافتی اور قبائلی روایات خواتین کو تھانے میں آنے سے روکتی ہیں، لیکن اب ہم ایک ہی چھت تلے انہیں تمام سہولیات فراہم کریں گے اور ان کے مسائل فوراً حل کریں گے۔ یہاں پر نہ صرف پرچہ کٹوایا جا سکتا ہے بلکہ ڈرائیونگ لائسنس، گھریلو ملازمین کے اندراج، گمشدگی کی اطلاعات سمیت کئی اہم اور ضروری کام انجام دیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں پچھلے سال پہلی مرتبہ ایک خاتون اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کا تقرر ہوا تھا۔ اس عہدے پر تعینات ہونے والی پری گل ترین کا تعلق ضلع پشین سے ہے۔ انہوں نے سی ایس ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے پولیس سروس میں شمولیت اختیار کی۔
Pingback: پاکستان میں خواتین کے لیے مخصوص پولیس اسٹیشنز کا قیام - دی بلائنڈ سائڈ