جنسی حملے کا ایک مقدمہ، جس نے بھارتی عدالتی نظام کی قلعی کھول دی

جب ایک بھارتی خاتون صحافی نے اپنے ایڈیٹر پر الزام لگایا کہ انہوں نے 2013ء میں ہوٹل کی لفٹ میں ان پر جنسی حملہ کیا، تو انہیں امید ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں جنسی طور پر ہراساں ہونے والی خواتین چپ سادھ لیتی ہیں، ان کی آواز ضائع اور بیکار نہیں جائے گی اور انہیں انصاف ملے گا۔

لیکن پچھلے مہینے گوا کی ایک ضلعی عدالت نے ‘تہلکہ میگزین’ کے ایڈیٹر ترون تیج پال کو بری کر کے حقوقِ نسواں کے لیے کام کرنے والی خواتین کو سخت ناراض کیا ہے اور انہوں نے اس مقدمے کے حوالے سے پولیس کی اہلیت پر سوال اٹھایا ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق عدالت نے پایا کہ مقامی حکام نے تیج پال کے خلاف منصفانہ سماعت کی راہ میں روڑے اٹکائے اور جان بوجھ کر CCTV فوٹیج لانے میں تاخیر کی جو شواہد ضائع کرنے کے مترادف ہے۔

وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے سوال اٹھایا ہے کہ عدالتی نظام الٹا متاثرہ خاتون پر انگلی کیوں اٹھا رہا ہے اور اس طرح کے فیصلے کے بعد ہراسگی یا جنسی حملے کے مقدمات کے لیے سامنے آنے والی خواتین کو کیا تاثر ملے گا۔

کویتا کرشن ایک کارکن اور آل انڈیا پروگریسو ویمنز ایسوسی ایشن کی سیکریٹری ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف مظلوم خاتون بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے خلاف تھا اور اس نے ثابت کیا کہ بھارت میں کسی خاتون کو جنسی حملے کے بعد انصاف نہیں ملے گا۔

کویتا نے کہا کہ ہم نے پایا کہ عدالت نے جلد بازی میں فیصلہ کر لیا کہ لفٹ میں کوئی جنسی عمل نہیں ہوا، جس سے یہ تاثر گیا کہ فریادی خاتون جھوٹی ہیں اور جنسی حملے کی کہانی گڑھ رہی ہیں۔ ان کے بارے میں ‘چالاک،’ ‘دھوکے باز،’ ‘معاملے کو الجھانے والی،’ اور ‘غلط’ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے۔

جسٹس کشاما جوشی کے 527صفحات پر مشتمل فیصلے میں خاتون کی ذاتی زندگی، ماضی کے اور موجودہ تعلقات، دوستوں کے ساتھ گفتگو اور جنسی رضامندی و ریپ کے حوالے سے خیالات تک شامل کیے گئے ہیں۔

عدالت نے تیج پال کے وکلا کو خاتون کے ذاتی واٹس ایپ پیغامات تک رسائی حاصل کرنے کی بھی اجازت دی، جس کا استعمال بعد کرتے ہوئے خاتون کو "جنسی گفتگو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی” اور "چھچھوری حرکات” کی مرتکب قرار دیا گیا۔

کویتا کرشن نے کہا کہ "کسی کے ذاتی پیغامات کا جائزہ لینا، کہ کوئی خاتون اپنے مرد دوستوں یا سابق بوائے فرینڈ کے ساتھ کیا رابطے کرتی ہے اور اس کے تعلقات کس نوعیت کے ہیں – یہی وہ صورت حال ہے جس کا ایک بھیانک جنسی حملے سے گزرنے کے بعد بیشتر خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔”

تیج پال کے خلاف مقدمہ 2013ء میں بھارت کے فوجداری قانون میں ہونے والی ترمیم کے تناظر میں کیا گیا تھا جس میں جنسی نوعیت کے جرائم پر سخت سزائیں دی گئی تھیں۔ یہ ترمیم دلّی کی ایک بس میں 23 سالہ میڈیکل طالبہ کے ساتھ بھیانک گینگ ریپ کے بعد کی گئی تھی جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھیں۔

گو کہ نئے قوانین ایسے واقعات پر مؤثر اور بروقت فیصلہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں لیکن پھر بھی تیج پال کو عدالت تک لانے میں آٹھ سال لگ گئے۔

مقدمے کے دوران تیج پال نے خاتون کی باتوں کو مکمل طور پر رد کیا اور کہا کہ لفٹ کے اندر کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس کے برعکس انہوں نے اسے ہوٹل کے لان میں "باہمی رضامندی سے ہونے والی جنسی نوعیت کی گفتگو” قرار دیا، جو ان کے خیال میں "متفقہ عمل” تھا ۔

جج کے فیصلے نے واٹس ایپ پیغامات کی اہمیت پر زور دیا۔ خاتون اور ان کے دوستوں کے درمیان 7 نومبر 2013ء کو پیش آنے والے مبینہ واقعے سے پہلے اور بعد کی گفتگو کو ثبوت سمجھا گیا۔

تیج پال کو بری کرنے کے بعد جج نے اپنی توجہ خاتون کی طرف کی۔ انہوں نے سوال کیا کہ خاتون نے ساتھ کام کرنے والے تین مرد ساتھیوں کو مبینہ حملے کے بارے میں کیوں بتایا، جبکہ اپنی خاتون روم میٹ کو نہیں بتایا؛ وہ اپنی دوستوں کے سامنے کیوں نہیں روئی اور کیوں انہوں نے کسی عام رویے کا اظہار نہیں کیا۔

طویل فیصلے میں اس رات کے واقعات کی تفصیل بیان کی گئی ہے جس میں گوا کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی لفٹ میں مبینہ طور پر یہ حملہ ہوا تھا۔ اس میں بھی جج نے خاتون کے بیان میں کئی "عدم تسلسل” بیان کیے۔

مثلاً وہ اس حملے کے بعد مسکرا کیوں رہی تھیں؟ اس رات کی CCTV فوٹیج میں انہیں پریشان کن اور تکلیف دہ حالت میں کیوں نہیں دیکھا گیا؟ حملے کے بعد ان کی چال میں اطمینان کیوں نظر آ رہا تھا؟

جج نے نہ صرف خاتون کا نام لیا بلکہ ان کا ای میل ایڈریس تک ظاہر کیا، جو جنسی حملوں کے مقدمات کے صریح منافی ہے۔ ممبئی ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ یہ نجی تفصیلات اس دستاویز سے خارج کی جائیں۔

حقوقِ نسواں کی وکیل فلاویا ایگنس کہتی ہیں کہ بھارت کی عدالتیں اب بھی ان قدیم تصورات پر چلتی ہیں کہ جن میں ریپ سے بچ جانے والی خواتین کے لیے ایک خاص طرزِ عمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ یعنی انصاف کے لیے خاتون کا ان تمام تمام دقیانوسی خیالات پر پورا اترنا ضروری ہے۔ اس کا ماضی اور اس کی جنسی تاریخ بھی ‘پاک بازی کے معیارات’ پر پوری اترنی چاہیے تبھی عدالت اسے اس قابل سمجھے گی کہ اس پر یقین کیا جائے۔ یہ بہت ہی افسوس ناک بات ہے۔

ماضی میں بھی چند ایسے فیصلے ہوئے ہیں مثلاً 2017ء میں پنجاب و ہریانہ کی ہائی کورٹ نے گینگ ریپ کی شکار خاتون کو شراب اور سگریٹ پینے، نشہ کرنے اور اپنے کمرے میں مانع حمل چیزیں رکھنے پر "جنسی حوالے سے کھلی ڈلی” قرار دیا۔ گزشتہ سال کرناٹک میں ایک جج نے ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کے رویے کو "نازیبا” قرار دیا۔

فلاویا کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ ابھی تو فیصلہ صرف ٹرائل کورٹ نے دیا ہے۔ اس معاملے کو آگے لے کر جائیں گے۔

کویتا نے کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ ججوں کو صنف، ذات، فرقہ وارانہ اور جنسی شناخت کے حوالے سے تربیت دینے کی ضرورت ہے۔

 

One Ping

  1. Pingback: بھارت میں ریپ اور قتل کا ایک اور بھیانک واقعہ - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے