ریواز فائق پورے مشرقِ وسطیٰ کی ان دو خواتین میں شمار ہوتی ہیں کہ جو یہاں کی کسی پارلیمنٹ کی اسپیکر کی ذمہ داریاں انجام دے رہی ہیں، یعنی ایک ایسے خطے میں کہ جہاں سیاست کو مردوں کا کام سمجھا جاتا ہے۔
اپنے دو ٹوک مؤقف کی وجہ سے معروف ریواز فائق کو جب 2019ء میں شمالی عراق کے خود مختار علاقے کردستان میں اس عہدے کے لیے چنا گیا تو انہیں درپیش چیلنجز کا بھرپور اندازہ تھا۔ کہتی ہیں "کردستان میں خواتین کے لیے سیاست میں آنا آسان نہیں ہے۔ یہاں مردوں کی اجارہ داری، امتیازی سلوک اور جنسی استحصال خواتین کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔”
43 سالہ دو بچوں کی ماں ریواز کا کہنا ہے کہ "اگر عورت مضبوط نہ ہو اور خود کو محفوظ نہ رکھ پائے تو جلد ہی وہ مرد سیاست دانوں کے ذاتی اور سیاسی مفادات کے جال میں پھنس سکتی ہے۔”
طاقتور قبائل کی پشت پناہی رکھنے والے مرد اِس علاقے میں عوامی و نجی دونوں زندگیوں میں ایک طاقتور کردار رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہر 10 میں سے 8 خواتین محض گھریلو ذمہ داریاں انجام دیتی ہیں۔ فائق کہتی ہیں کہ کرد معاشرے میں مرد سیاست دان خواتین سے زیادہ با اثر ہیں، کیونکہ ان کے پاس مسلح محافظ، بے پناہ دولت اور ذرائع ابلاغ کی مدد ہے۔ وہ ہر وقت نظروں میں رہتے ہیں جبکہ خواتین کو تو قبائلی اجلاس میں بیٹھنے تک کی اجازت نہیں کہ جہاں عام معاشرے کے بیشتر فیصلے ہوتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کرد شخصیت آفان فارس جاف کہتی ہیں کہ ریواز فائق کو دیکھ کر مجھے پاکستان کی بے نظیر بھٹو یاد آ جاتی ہیں، جو کسی بھی مسلم ملک کی پہلی خاتون سربراہِ مملکت تھیں۔ "فائق خود اعتماد ہیں، کرشماتی شخصیت کی حامل ہیں اور ایک حقیقی رہنما ہیں۔ انہوں نے کردستان میں سیاست کے تصور کو تبدیل کیا ہے اور تمام خواتین کے لیے امید کی کرن ہیں۔ پھر وہ "طاقتور” بھی ہیں۔”
مارچ میں پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کے دوران، جو براہِ راست ٹیلی وژن پر نشر کیا جا رہا تھا، ایک رکن پارلیمنٹ نے فائق کی طرف جوتا پھینکا تھا۔ جاف کے مطابق اس کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی فائق کو غصہ نہیں آیا اور انہوں نے اجلاس پر اپنی گرفت نہیں کھوئی۔ بلکہ کہا کہ "اگر آپ نے یہ جوتا مجھ پر پھینکا ہے تو میں نے آپ کو معاف کیا، لیکن اگر آپ نے یہ پارلیمنٹ پر پھینکا ہے، تو کوئی معافی نہیں ہے۔”
فائق، جو کرد ثقافت کے رنگین پہناووں کے ساتھ حجاب کرتی ہیں، انٹرنیشنل لا میں ماسٹرز اور سوِل لا میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتی ہیں۔ انہوں نے 15 سال کی عمر میں سیاست میں قدم رکھا، جب صدام حسین کے دور میں ان کے گاؤں کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ البتہ ایک سال بعد انہوں نے کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر پیٹریاٹک یونین آف کردستان (PUK) میں شمولیت اختیار کی اور 2013ء میں اسی جماعت کی طرف سے پارلیمنٹ کی رکن بنیں۔ آج پورے مشرق وسطیٰ میں اُن کے علاوہ صرف ایک خاتون اسپیکر موجود ہیں، فوزیہ زینل، جنہیں 2018ء میں بحرین کی قومی اسمبلی کی سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔
فائق کہتی ہیں کہ عراق کے سابق صدر مرحوم جلال طالبانی، جو PUK کے بانی تھے اور جماعت کے قیام میں اُن کی اہلیہ کا کلیدی کردار تھا، سیاست میں خواتین اور ان کی صلاحیتوں پر یقین رکھتے تھے۔ بدقسمتی نے ماضی کے مقابلے میں اب PUK میں اب خواتین سیاست دان کی تعداد کم ہے، باوجود اس کے کہ اب معاشرہ زیادہ آزاد خیال ہے۔
ریواز فائق کے دور میں پارلیمنٹ میں کئی قوانین منظور ہوئے ہیں، جن میں تیل اور منشیات کی اسمگلنگ کے حوالے سے قانون بھی شامل ہے کہ جو کردستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔
Pingback: بھارت، 25 سال گزر گئے، پارلیمان میں خواتین کے لیے نشستیں مختص نہ ہو سکیں - دی بلائنڈ سائڈ