اردن کی افواج اور صنفی برابری کی طرف بڑھتے قدم

کسی بھی عرب ملک کا ذہن مین آتے ہی کم از کم یہ خیال تو ذہن میں نہیں آتا کہ وہاں کی فوج میں خواتین شامل ہوں گی لیکن اردن میں نہ صرف فوج میں خواتین موجود ہیں بلکہ ان کی کامیابیاں بھی متاثر کُن ہیں۔ ایک قدامت پسند معاشرے میں خواتین کی ان کامیابیوں کا سبب وہ عملی اور قابلِ تقلید مثآلیں ہیں جو شاہی خاندان کی خواتین نے پیش کی ہیں۔

جب اپریل 1949ء میں مملکتِ اردن کا قیام عمل میں آیا تھا تو خواتین کو مسلح افواج یا مختلف سماجی شعبوں میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن 1950ء میں خواتین نے پہلی بار فوج میں باضابطہ شمولیت اختیار کی جب آٹھ خواتین اساتذہ کو بھرتی کیا گیا البتہ فوج میں خواتین کی تعداد بدستور کم ہی رہی۔

جب 1951ء میں عبد اللہ اول کے اچانک قتل اور ان کے صاحبزادے طلال کی معزولی کی وجہ سے نو عمر شاہ حسین برسرِ اقتدار آئے تو حالات بھی بدلنا شروع ہو گئے۔

1962ء میں شاہ حسین کی برطانوی اہلیہ اور شاہ عبد اللہ ثانی کی والدہ شہزادی مونا نے ایک ملٹری نرسنگ کالج قائم کیا اور 1965ء میں یہاں سے آٹھ نرسز کا پہلا گروپ تعلیم حاصل کر کے نکلا۔

ماضی میں فوج میں خواتین محض تعلیمی کردار تک محدود تھیں، لیکن آج انہیں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے۔

لیفٹیننٹ کرنل اور موجودہ شاہ کی بہن شہزادی عائشہ اردن کی مسلح افواج کے ڈائریکٹوریٹ برائے امورِ خواتین کی سربراہ ہیں، جو 1995ء میں قائم کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد فوج کے روایتی انتظامی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں خواتین کی شمولیت کو بڑھانا ہے۔

فوج میں شاہی خاندان کی خواتین کی شمولیت کی تازہ مثال شہزادی سلمیٰ کی ہے، جو شاہ عبد اللہ کی صاحبزادی ہیں۔ سلمیٰ نے چند روز پہلے دارالحکومت کے قریب ‘نیٹو’ کے تعاون سے بنائے گئے ملٹی ویمنز ٹریننگ سینٹر کے افتتاح کے موقع پر اپنی فضائیہ کی وردی پہنی تھی۔

فوج کا ڈائریکٹوریٹ برائے امورِ خواتین صنفی حساسیت کی تربیت کو بھی شامل کرنے کا کام کر رہا ہے اور اس نئی تنصیب کے ذریعے مسلح افواج اس سمت میں قدم آگے بڑھانے پر کام کریں گی۔

فوج کی ویب سائٹ کے مطابق اردن کی خواتین فیلڈ آپریشنز سمیت تمام عسکری شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ اس میں عام قیادت، فضائیہ، فوجی تعلیم، فیلڈ یونٹس، تربیت، فوجی پولیس، رائل گارڈ، ملٹی انٹیلی جنس، ایئر کنٹرول اور ایئر پولیس سب شامل ہیں۔

فلک جمانی، ایک ریٹائر کرنل ہیں جو خواتین فوجی رہنماؤں کی پہلی نسل سے تعلق رکھتی ہیں اور پہلی خاتون تھیں جو ایک بڑی طبی تنصیب، مشرقی عمان میں واقع شہزادی عائشہ ملٹری میڈیکل کمپلیکس، کو چلاتی تھیں۔

اردن کی خواتین 2007ء میں اقوام متحدہ کی امن فوج کا حصہ بھی بنیں۔ 146 خواتین پر مشتمل دستہ کانگو، قبرص، جنوبی سودان اور فجی میں امن کے قیام کی کوششوں میں حصہ لے رہا ہے۔ انہوں نے مہاجرین کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھی نبھائیں اور مختلف ممالک میں مقامی پولیس اہلکاروں کی تربیت میں شامل  ہیں۔

One Ping

  1. Pingback: اردن: گھریلو تشدد میں اضافہ، رواں سال 13 خواتین کا قتل - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے