ماحور شہزاد بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں جو رواں سال ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔ وہ ملک کی پہلی بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں کہ جنہوں نے اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا ہے اور اس وقت خواتین کی عالمی رینکنگ میں ان کا نمبر 117 واں ہے۔
24 سالہ ماحور کو پچھلے سال کئی بین الاقوامی مقابلوں میں مدعو کیا گیا تھا، لیکن وہ کووِڈ-19 کی وجہ سے ان میں شرکت نہیں کر پائی تھیں۔ اب ان کا کہنا ہے کہ اولمپکس کے لیے منتخب ہونا میرے خوابوں کی تعبیر ہے اور اس اہم بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پاکستان کی نمائندگی کی سوچ ہی انہیں جوش دلانے کے لیے کافی ہے۔
ماحور نے اپنے والد کی بھرپور مدد سے 11 سال کی عمر میں بیڈ منٹن کھیلنے کا آغاز کیا تھا۔ ان کے والد محمد شہزاد بیڈمنٹن کے سابق کھلاڑی ہیں اور انہوں نے اپنی تمام بیٹیوں کی بیڈمنٹن کھیلنے کے لیے حوصلہ افزائی کی ہے۔
ماحور نے 13 سال کی عمر میں اپنی بڑی بہن کو شکست دے کر قومی جونیئر ٹائٹل جیتا اور پھر صرف 19 سال کی عمر میں سینیئر قومی چیمپئن بنیں۔
خاندان کی بھرپور سپورٹ ہونے کے باوجود ماحور کہتی ہیں کہ انہیں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اندازہ لگانے کے لیے کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جرمن نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "سب سے بڑا چیلنج جو مجھے درپیش رہا وہ یہ تھا کہ بیڈمنٹن کی سہولیات تک رسائی مشکل تھی، کیونکہ کراچی میں پبلک کورٹس اور کوچز بہت محدود تھے۔”
یہی وجہ ہے کہ والد محمد شہزاد ان کے بنیادی کوچ بنے۔ ماحور کے مطابق کراچی سے باہر دیگر شہروں اور دیہی علاقوں کی طرف جائیں تو کھیلوں کی سہولیات مزید کم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں عموماً خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ گھریلو کردار ہی ادا کریں اور کھیل کو اپنا کیریئر نہ بنائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کئی با صلاحیت کھلاڑیوں سے محروم ہو رہا ہے۔ "میں خاندان کی سپورٹ کی وجہ سے خوش قسمت تھی، جو عموماً ہمارے ہاں لڑکیوں کو نہیں ملتی۔”
23 سالہ نورینہ شمس اسکواش کھیلتی ہیں اور پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں کھیلوں کی ترویج کے لیے کام کرتی ہیں۔ جب وہ چھوٹی تھیں تبھی ان کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اس لیے انہیں ان کی والدہ نے پالا۔ 15 سال کی عمر میں نورینہ نے کرکٹ کھیلنے کے لیے لڑکے کا روپ دھار لیا۔ وہ تو جونیئر سطح تک پہنچ گئیں تب جا کر ان کی شناخت کھلی۔
نورینہ بتاتی ہیں کہ کھیل کے شعبے میں مردوں کا اتنا غلبہ ہے کہ بغیر کسی مرد کے خاتون کے لیے حالات بہت دشوار ہیں۔ "لوگ آپ کو سنجیدہ ہی نہیں لیتے اور آپ کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ "مجھے والدہ کو قائل کرنے میں آٹھ سال لگ گئے کہ وہ اسپورٹس کو بطور کیریئر اپنانے دیں۔”
وقت کے ساتھ ساتھ نورینہ آگے بڑھتی رہیں اور اب مختلف اسپورٹس باڈیز اور فیڈریشنز کی رکن ہیں۔ کہتی ہیں کہ "مجھے دکھ ہوتا ہے جب میں ان مردوں کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھتی ہوں کہ جو دوسری خواتین سے جنسی تعلقات کے مطالبات کر چکے ہیں، زیادہ تر کم عمر لڑکیوں سے۔ بسا اوقات ایسے اجلاسوں میں واحد خاتون ہوتی ہوں اور میں ان کے لیے آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہوں جن کی آواز نہیں سنی جاتی۔ اس وقت ضرورت ہے کہ حکومت ہمیں تحفظ دے۔
لینا عزیز اسپورٹس کمنٹیٹر اور تجزیہ کار ہیں اور 25 سال سے اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ حکومتِ پاکستان نے کھیلوں سے وابستہ خواتین کے تحفظ کے لیے بہت کم اقدامات اٹھائے ہیں۔ اسپورٹس اور اسپورٹس براڈ کاسٹنگ میں خواتین کو ہراسگی کا بہت زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی خواتین نے تو خاموشی سے سہنے کے بعد خود کشیاں کر لی، جنہوں نے شکایت کی تو اُن کا کیریئر ہی ختم ہو گیا۔ زبان کھولنے والی خواتین کو سزائیں ملی اور خاموشی سے سب کچھ سہنے والی فیورٹ بن گئیں۔
انہوں نے ایک 17 سالہ کھلاڑی حلیمہ رفیق کی مثال دی جنہوں نے 2014ء میں خود کشی کر لی تھی جب سلطان کرکٹ کلب کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے انہیں ہراساں کیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایک دو رکنی کمیٹی نے اس معاملے میں حکام کو بے گناہ قرار دیا اور آواز اٹھانے والی تمام کھلاڑیوں پر چھ، چھ ماہ کی پابندی لگا دی۔
لینا عزیز کہتی ہیں کہ حکومت کو ایک ‘پروٹیکشن سیل’ قائم کرنا چاہیے اور ساتھ ہی خواتین کھلاڑیوں کو نفسیاتی مشاورت کی سہولت دینی چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستانی معاشرے میں خواتین کو جس عدم مساوات اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے، اس کی وجہ سے انہیں مردوں کے مقابلے میں کم مواقع میسر ہیں۔
پاکستان کی قومی فٹ بال اور باسکٹ بال ٹیم کی سابق کپتان ثنا محمود کہتی ہیں کہ کھیلوں کے میدانوں میں خواتین کے آگے بڑھنے میں بد عنوانی اور سیاست بھی رکاوٹ ہیں۔ کئی اسپورٹس فیڈریشنز محض سیاسی روابط کی بنیاد پر بنی ہوئی ہیں، جن میں مردوں کا غلبہ ہے یعنی کہ بنیادی طور پر ہی خواتین یکساں نمائندگی نہیں رکھتیں۔ پھر قیادت انتہائی کمزور ہے، بالخصوص خواتین کی۔ ان کے فنڈز کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اور ان کی ٹیموں، فیڈریشنز اور ایونٹس کو مناسب فنڈز نہیں دیے جاتے۔ یہاں تک کہ اگر کہیں کسی خاتون کو کوئی نشست دی بھی جاتی تو وہ محض علامتی ہوتی ہے، دراصل انہیں کوئی اختیار یا رائے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔
ثنا، جو ایک این جی او Right to Play بھی چلاتی ہیں، نے زور دیا کہ لڑکیوں کو کھیلنے کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے تاکہ کھیل کے شعبے میں صنفی تفریق نظر نہ آئے۔ "اگر آپ کا کلچر لڑکیوں کو بھاگنے، دوڑنے، کودنے یا کھیلنے سے روکتا ہے تو آپ کو کیسے پتہ چلے گا کہ وہ کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں؟ کھیل سے وابستہ خواتین کی آنے والی نسل کے لیے ہمیں نو عمر لڑکیوں کو آزادی اور اختیار دینا ہوگا تاکہ وہ لڑکوں کی طرح مضبوط ہوں اور مقابلے کے ہر میدان میں خود کو ثابت کریں۔”
Pingback: اولمپکس کا تاریخی آغاز، تقریباً ہر ملک کا پرچم خاتون کے ہاتھوں میں تھا - دی بلائنڈ سائڈ