بھارت، مسلمان خاتون فلم ساز پر بغاوت کا مقدمہ درج

بھارت کے جزائر لکشادیپ میں پولیس نے ایک مقامی فلم ساز کو بغاوت کے مقدمے میں گھسیٹ لیا ہے۔

عائشہ سلطانہ نامی فلم ساز نے وفاق کے زیر انتظام جزائر پر حال ہی میں تعینات کیے گئے منتظم پر تنقید کرتے ہوئے انہیں لکشادیپ کے عوام پر استعمال کیا جانے والا "حیاتیاتی ہتھیار” (bioweapon) قرار دیا تھا۔

یہ مقدمہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے ایک سیاست دان نے جزائر کے دار الحکومت کوراتی کے ایک تھانے میں درج کیا ہے۔ جن کا کہنا ہے کہ ملیالم زبان کے ایک ٹیلی وژن شو کے دوران عائشہ سلطانہ نے کہا تھا کہ مودی حکومت منتظم پرافل پٹیل کو بطور "حیاتیاتی ہتھیار” استعمال کر رہی ہے۔

‏63 سالہ پرافل پٹیل ان جزائر کے پہلے منتظم ہیں جو بیورو کریٹ نہیں ہیں۔ وہ ماضی میں اُس وقت ریاست گجرات کے وزیرِ داخلہ تھے جب وہ نریندر مودی وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر موجود تھے اور ریاست میں مسلمانوں کا زبردست قتلِ عام ہوا تھا۔

جزائر لکشادیپ کشمیر کے علاوہ بھارت کا واحد علاقہ ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اپنے خوبصورت ساحلوں کی وجہ سے سیاحوں میں بہت مقبول ہیں۔ یہاں کے ‏36 جزائر میں سے 10 ہی آباد ہیں، جو 32 مربع کلومیٹرز پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آبادی 65 ہزار ہے اور 97 فیصد لوگ مسلمان ہیں۔ کیونکہ یہ وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ ہے اس لیے صدر یہاں کے لیے ایک منتظم مقرر کرتا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں اس عہدے پر پرافل پٹیل کو مقرر کیا گیا۔ جنہوں نے آتے ہی مقامی نمائندوں سے مشاورت کے بغیر کئی نئے قوانین اور تجاویز پیش کیں۔

ان اقدامات کے بعد مقامی آبادی کو اپنی املاک، ذرائع معاش اور دیگر حقوق چھن جانے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ حکومت ان دُور دراز جزائر کو سیاحتی مرکز بنانے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ مجوزہ ٹاؤن پلاننگ منصوبے میں لگژری ہاؤسنگ اور گہرے سمندروں کی کھوج لگانا شامل ہیں، جس کے تحت پرافل پٹیل کو مقامی آبادیوں کو منتقل کرنے یا سرے سے ختم کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔

یہی نہیں بلکہ دیگر کئی متنازع قوانین بھی پیش کیے گئے ہیں مثلاً گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور شراب خانوں کے لائسنس بڑھانے کے اقدامات، جو مسلم آبادی کو چھیڑنے کے مترادف ہے۔ اس وقت جزائر پر شراب کی فروخت اور استعمال پر پابندی ہے۔ اس کے علاوہ دو سے زیادہ بچے رکھنے والے مقامی افراد کو دیہی کونسل کے انتخابات کے لیے نا اہل کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انتظامیہ کسی بھی شخص کو بغیر کسی مقدمے کے ایک سال تک قید میں رکھ سکتی ہے۔

ایسے قوانین اور تجاویز پر ردِ عمل فطری تھا۔ عائشہ سلطان سمیت ہزاروں مقامی باشندوں نے سوشل میڈیا پر احتجاج کا علم بلند کیا، کیونکہ کووِڈ کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج نہیں کیا جا سکتا۔

عائشہ نے اپنی فیس بک پوسٹ میں اپنے ان الفاظ کو پھر دہرایا ہے جو انہوں نے ٹیلی وژن شو میں ادا کیے اور کہا کہ میں نے پٹیل کی شخصیت کو "حیاتیاتی ہتھیار” کہا ہے، حکومت یا ملک کو نہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ان کی پالیسیاں "حیاتیاتی ہتھیاروں” والا کام ہی کر رہی ہیں۔ وہ اور ان کے ہم نواؤں کے اقدامات کی وجہ سے جزائر پر کووِڈ پھیلا۔

واضح رہے کہ سال 2020ء کے دوران لکشادیپ میں کرونا وائرس کا ایک کیس نہیں تھا، کیونکہ مقامی انتظامیہ نے سخت انتظامات کیے تھے۔ اس لیے بھی کیونکہ صحت کا مقامی نظام بہت کمزور ہے اور 10 جزائر پر صرف تین ہسپتال موجود ہیں۔ پھر پٹیل نے آتے ہی جنوری میں قرنطینہ کے قواعد کو بدل دیا اور سب کو جزائر پر آنے کی اجازت دے دی، اس کے بعد ایسا بحران جنم لیا ہے کہ اب تک رکنے میں نہیں آیا۔ اس چھوٹے سے علاقے میں بھی اب تک 9 ہزار مریض سامنے آ چکے ہیں اور 40 اموات ہو چکی ہیں۔

ان اقدامات کے خلاف ملک بھر میں ‎ #SaveLakshadweep نامی مہم شروع ہوئی ہے، جسے حزب اختلاف کے اہم رہنما راہُل گاندھی سمیت کئی شخصیات کی حمایت حاصل ہے۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ہم نسلوں سے یہاں پُر سکون زندگی گزار رہے تھے اور کبھی یہ نوبت نہیں آئی کہ ہمیں احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنا پڑا ہو لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری زمین اور ہمارے گھر ہتھیائے جا رہے ہیں۔ یہ زیادہ بڑا علاقہ نہیں ہے۔ ہمیں نکالا جائے گا تو کہاں آباد کیا جائے گا؟ ان کا کہنا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے منصوبوں سے جزائر کے وسائل پر دباؤ کہیں بڑھ جائے گا، مثلاً پینے کے پانی اور صحت کی سہولیات پر جو ویسے ہی بہت محدود ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے