دل کے امراض، خواتین میں موت کا سب سے بڑا سبب

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ دل کے امراض مردوں کی بیماری ہیں یا پھر یہ ترقی یافتہ ممالک کی خواتین کو ہی ہوتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی 35 فیصد اموات دل کے امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اور اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ اس حوالے سے خواتین پر بہت کم تحقیق کی گئی ہے اور ان میں دل کے عارضے کی تشخیص اور علاج میں کوتاہی بھی کی جاتی ہے اور جو کلینکل ٹرائلز میں بھی ان کی نمائندگی کم ہوتی ہے۔

یہ انکشاف معروف جریدے ‘دی لانسیٹ’ کے کمیشن برائے خواتین و امراضِ قلب کی نئی رپورٹ میں ہوا ہے، باوجود اس کے کہ خواتین پر امراضِ قلب کے اثرات کے حوالے سے نچلی سطح پر شعور اجاگر کرنے کی دہائیوں سے کوششیں جاری ہیں۔

لانسیٹ کے مکمل طور پر خواتین پر مشتمل کمیشن کا مقصد 2030ء تک امراضِ قلب کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو گھٹانا ہے کہ جن میں دل کے امراض اور دورے شامل ہیں۔ ساتھ ہی اس دہائی کے اختتام تک اقوامِ متحدہ کے ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے مطابق امراض قلب سمیت تمام غیر متعدی امراض سے ہونے والی اموات کو ایک تہائی کم کرنا ہے۔

یہ کمیشن دنیا بھر میں مرض کے پھیلاؤ اور اثرات میں موجود عدم مساوات کا خاکہ پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی سماجی و معاشی محرومی کے ان پر پڑنے والے نمایاں اثرات کو بیان کرتا اور انہیں حل کرنے کے لیے حکمت عملی ترتیب دیتا ہے۔

یہ اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ ہے جسے کمیشن نے 2019ء کی Global Burden of Disease تحقیق کی بنیاد پر مرتب کیا ہے۔ اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا بھر میں امراضِ قلب کی شکار خواتین کی تعداد 27.5 کروڑ ہے جبکہ اس کی شرح ہر 1,00,00 پر تقریباً 6,402 خواتین ہے۔ دل کی شریانوں کا سکڑنا اور دل کا دورہ خواتین میں اموات کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ ویسے دنیا بھر میں خواتین میں امراضِ قلب کے پھیلنے کی شرح کم ہو رہی ہے اور 1990ء سے اب تک اس میں مجموعی طور پر 4.3 فیصد کمی آئی ہے۔ البتہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مثلاً چین میں 10 فیصد، انڈونیشیا میں 7 فیصد اور بھارت میں 3 فیصد۔ یہ اضافے خواتین میں ان امراض کے پھیلاؤ کو روکنے، فوری تشخیص اور علاج کی بر وقت ضرورت کو ظاہر کرتے ہیں۔

خواتین میں امراضِ قلب کا سب سے زیادہ پھیلاؤ مصر، ایران، عراق، لیبیا، مراکش اور متحدہ عرب امارات میں دیکھا گیا ہے جبکہ بولیویا، پیرو، کولمبیا، ایکویڈور اور وینیزوئیلا میں اس کی سب سے کم شرح دیکھی گئی ہے۔ ایشیا بحر الکاہل کے آسودہ حال علاقوں، آسٹریلیا، مغربی یورپ لاطینی امریکا کے انڈیز پہاڑوں کے ساتھ واقع علاقوں اور شمالی امریکا کے امیر طبقات میں اس کی شرح کم سب سے کم ہے، کہ جہاں 1,00,000 خواتین میں دل کے مرض سے موت کی شرح 130 سے بھی کم ہے۔ جبکہ وسط ایشیا، مشرقی یورپ، شمالی افریقہ و مشرق وسطیٰ، اوقیانوسیہ (Oceania) اور وسطی نیم صحراوی (Sub-Saharan) افریقہ میں یہ شرح بہت زیادہ ہے کہ جہاں 1,00,000 خواتین میں دل کے مرض سے مرنے کی شرح 300 سے زیادہ ہے۔

خواتین میں امراضِ قلب کی سب سے بڑی وجہ ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشارِ خون ہے، جس کے بعد موٹاپے اور کولیسٹرول کی زیادتی کے نام آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے پہلے بھی ہیں جن کا سامنا صرف خواتین کو ہوتا ہے، مثلاً قبل از وقت سنِ یاس اور حمل کی پیچیدگیاں بھی امراضِ قلب کا سبب بنتی ہیں، جنہیں عموماً اس کی وجہ سمجھا ہی نہیں جاتا اور علاج و تحفظ میں ان مسائل کو ترجیح نہیں دی جاتی۔

اس کے علاوہ چند عوامل ایسے بھی ہیں کہ جنہیں تسلیم تو نہیں کیا جاتا لیکن ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، مثلاً بے روزگاری جو ذہنی تناؤ اور سماجی و معاشی اور ثقافتی دباؤ، نسل اور غربت کی بنیاد پر عدم مساوات، جو ایسے امراض کا باعث بنتے ہیں۔

رپورٹ کی سفارشات میں علاج کے دوران ذہنی صحت پر زیادہ توجہ دینا بھی شامل ہے، جس کے ساتھ معالجین، سائنس دانوں اور صحت کے شعبے سے وابستہ افراد میں خواتین کو درپیش خطرات سمجھنے کا شعور بھی دینا چاہیے۔ کمیشن کے اراکین نے کہا کہ پسماندہ طبقات کے لیے خاص طور پر حل تیار کرنے کا کام بھی کرنا چاہیے، مثلاً اقلیت یا مقامی آبادیوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، یا پھر وہ کہ جن کا معاشرے میں کردار روایتی یا مذہبی بنیادوں پر محدود کیا جاتا ہے۔

سفارشات میں خواتین میں امراضِ قلب کو کم کرنے کے لیے اس مرض کی فوری تشخیص، علاج اور اس سے تحفظ کے عمل میں غیر منصفانہ صورتِ حال سے نمٹنا بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ ان طبقات تک پہنچنے کی ضرورت پربھی زور دیا گیا ہے کہ جنہیں عموماً زیادہ خطرے سے دوچار نہیں سمجھا جاتا، مثلاً نو عمر خواتین کہ جن میں دل کے دورے اور تمباکو نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے۔

اس کے علاوہ کلینکل ٹرائلز میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی شرکت بھی بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

رپورٹ کا حصہ رہنے والی ڈاکٹر رخسانہ مہران کہتی ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ یہ روڈ میپ مستقبل میں خواتین کے دل کی صحت کے لیے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوگا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے