سارہ زماحی گزشتہ مہینے فرانس کے صدر ایمانوئیل ماکروں کی برسرِ اقتدار جماعت کی حمایت رکھنے والی کونسلر بننے جا رہی تھیں، جب ان سے حمایت واپس لے لی گئی۔ ان کا جرم: تشہیر کے لیے بنائے گئے پوسٹر میں حجاب پہننا۔
26 سالہ سارہ اور مون پیلیے شہر کی اس نشست پر دیگر تین امیدوار اب آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کا نعرہ ہے "مختلف لیکن آپ کے لیے متحد”۔
شہر کے ایک علاقے میں اپنی مہم کے لیے فلائیر تقسیم کرتے ہوئے زماحی نے کہا کہ وہ اب دست بردار نہیں ہوں گی۔ لا موسوں نامی یہ علاقہ مسلمان تارکینِ وطن کا مرکز ہے کہ جن کا تعلق فرانس کی سابق شمالی افریقی نو آبادیات سے ہے۔
فرانس میں اسلام کے کردار پر قومی بحث کا مرکز بننے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں زماحی نے کہا کہ وہ یکساں مواقع کے فروغ اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے جدوجہد پر توجہ دینا چاہتی ہیں۔ "یہ میرا علاقہ ہے۔ میں یہاں پیدا ہوئی تھیں۔ ہم چاروں کے لیے کبھی حجاب مسئلہ رہا ہی نہیں۔”
لیکن فرانس کے دیگر علاقوں میں ایسا نہیں ہے۔
زماحی کی انتخابی مہم کے لیے تصویر نے ماکرون کی لاریم پارٹی کو تقسیم کر دیا ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ سیکولر قوانین کے نفاذ پر کس طرح مختلف رائے موجود ہیں، خاص طور پر اس صورت میں کہ جب اسلام کیتھولک مسیحیت کے بعد ملک کا دوسرا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے۔
فرانس کے سخت گیر سیکولر ازم ‘laïcité ‘ کے ماننے والے سمجھتے ہیں کہ حجاب "سیاسی اسلام” کی علامت ہے اور فرانس کے جمہوری نظریے کی نفی ہے۔
اب 2022ء کے صدارتی انتخابات میں ایک طرف فرانس کا یہ سخت گیر سیکولر ازم ہے اور دوسری جانب شناخت کا معاملہ اور مقابلہ انہی بنیادوں پر نظر آتا ہے۔ اب تک جو رائے شماری کی گئی ہے اس کے تحت انتہائی دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین صدر ماکرون کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہوں گی۔
زماحی کی مہم کے سربراہ محفوظ بن علی کا کہنا ہے کہ فرانس اب بدل رہا ہے۔ "میں ان امیدواروں کے حق میں ہوں جو معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔”
زماحی حجاب کے معاملے میں اتنی سخت گیر نہیں ہیں بلکہ اپنے کام کے دوران حفظانِ صحت کی وجوہات کی بنا پر اسے اتار بھی دیتی ہیں۔ زماحی کے ساتھی امیدواروں کا کہنا ہے کہ مہم کے لیے ایسی تصویر کھنچوانے کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ مقامی آبادی کس طرح کی ہے۔
اس معاملے پر تنازع تب کھڑا ہوا جب لی پین کی جماعت کے ایک اہم عہدیدار نے اس تصویر پر تنقید کی۔
جس پر حکمران جماعت کا کہنا تھا کہ انتخابی مہمات کے دوران مذہبی علامتوں کا کھلم کھلا اظہار نہیں ہونا چاہیے اور کچھ ہی دیر بعد جماعت نے سارہ کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔
پارٹی ترجمان رولینڈ لیس کیور نے کہا کہ جیسے ہی آپ اپنے انتخابی پوسٹر میں کوئی مذہبی علامت پہنتے ہیں تو یہ سیاسی قدم بن جاتا ہے۔ میری ترجیح ہے کہ ہمارے امیدوار اور ہمارے منتخب عہدیدار تمام لوگوں کی بات کریں۔”
فرانس کا قانون انتخابی فلائیرز اور پوسٹرز پر موجود تصاویر میں حجاب یا دیگر مذہبی علامات پہننے سے نہیں روکتا۔
لاریم کی رکن پارلیمنٹ کوریلی دوبوس نے پارٹی کے طرزِ عمل پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ چاہے وہ حجاب پہنتی ہوں یا نہ پہنتی ہوں، لیکن انہیں پارٹی میں جگہ ملنی چاہیے تھی۔
Pingback: جرمنی میں حجاب پر پابندی اور مسلمان خواتین کی جدوجہد - دی بلائنڈ سائڈ