فلسطین کی خواتین کا کھلا خط، دنیا کے نام

مسئلہ فلسطین دنیا کے سلگتے ہوئے مسائل میں سے ایک ہے۔ ایک ایسا زخم جو 70 سال گزرنے کے باوجود ہرا ہے اور اس میں سے اب بھی خون رِس رہا ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں یہ مسئلہ ایک مرتبہ پھر ابھر کر دنیا کے سامنے آیا ہے اور یہی وقت ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آواز اٹھانے کا۔ اسی لیے فلسطین سے تعلق رکھنے والی حقوقِ نسواں کی کارکن زینہ ابو ستہ، اسماء عبد اللہ اور ڈاکٹر لینا ابی رافح نے یہ خط لکھا ہے:

فلسطینیوں کے ان کے آبائی وطن سے نکالنے کے 73 سال اور ظلم و تشدد کے طویل سلسلے میں تازہ جنگ بندی کے دو ہفتوں بعد، ہم اب بھی یہیں موجود ہیں، محض یہ کہنے کے لیے فلسطین اب بھی اپنا وجود رکھتا ہے۔

معلوم تاریخ سے فلسطینی اس علاقے میں موجود ہیں۔ اب بھی یہاں پر ہمارا وجود باقی ہے، اپنی تاریخی سرزمین پر رہنے کے حق اور یہاں جینے کے حق کے ساتھ۔

مئی میں اسرائیل کی جانب سے بدترین مظالم ڈھائے گئے جو فلسطینی عوام کو یہاں سے بے دخل کرنے کی تازہ کوشش تھی۔ یہ 13 سال میں چوتھا موقع تھا کہ جب غزہ، مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی القدس میں اسرائیلی فوج اور آباد کاروں کی جانب سے فلسطینیوں کی جانیں لینے، ان کے گھروں کو تباہ کرنے، ان کی جانیں بچانے والی سروسز کو نقصان پہنچانے اور ان کے ذرائع معاش برباد کرنے کی کوششیں کی گئیں، اور اس سے صرفِ نظر بھی کیا گیا۔

یہ ایسے ظالم و غاصب کی جارحیت تھی جو سرزمینِ فلسطین سے فلسطینیوں کو مٹانا چاہتا ہے- اس سرزمین سے کہ جو توحیدی مذاہب کے بہت سے مقدس مقامات رکھتی ہے ۔ یہاں تک کہ اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک مسجد اقصیٰ پر حملے، چڑھائی اور وہاں لوٹ کھسوٹ سے بھی باز نہیں آیا۔ اسرائیلی فوج کی طاقت فلسطینیوں کے دفاعی ذرائع سے کہیں زیادہ ہے۔ غزہ کے فلسطینی محاصرے میں ہیں کہ جس کی وجہ سے وہ گزشتہ 15 سال سے انتہائی بنیادی حقوق سے بھی محروم ہیں۔ انہیں جان بوجھ کر بجلی، پانی، نقل و حمل کے ذرائع، صحت عامہ اور رہائش تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ پہلے بھی کسی نے کہا ہے کہ غزہ دنیا کا سب سے بڑا ‘کھلا قید خانہ’ (اوپن ایئر جیل) ہے۔

غزہ پر اسرائیل کی تازہ بمباری میں صحت اور تعلیم کے بنیادی ڈھانچے، مقامی کمیونٹی کے اور مذہبی مراکز اور بلاشبہ گھروں کا بھی صفایا کیا گیا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل نے فلسطینیوں کی گرفتاریوں اور قتلِ عام کے لیے بھرپور مہمات چلائیں۔ اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینی برادری نے احتجاج کیا تو انہیں گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینی باشندوں پر ان کے گھروں میں اور سڑکوں پر حملے کیے، بنا کسی خوف کے اور انہیں اس کی پوری چھوٹ تھی۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حملے کی زد میں موجود لوگوں کا سماجی تحفظ، ان کی خیر و عافیت، حوصلہ اور ذہنی صحت بھی نشانے پر ہے۔ یہ وہ تباہی ہے جو دنیا کو نظر نہیں آتی۔

اسرائیل کے اقدامات اور ان کے آباد کار کی حرکات طویل عرصے سے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر رہی ہیں۔ یہ دونوں مل کر کام کر کے کئی نسلوں سے ہماری زمینوں اور ہماری جانوں کو اپنی گرفت میں لے کر فلسطین کے وجود کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دنیا کی طویل ترین غلامی میں رہنے والے فلسطینیوں کو کون سے حقوق حاصل ہیں؟ ہمیں اب بھی امن کے ساتھ رہنے، تعلیم حاصل کرنے، صحت کا حق حاصل نہیں۔ ہمارے وجود پر سودے بازی کی جا رہی ہے اور بین الاقوامی برادری کے دہرے معیارات کی وجہ سے ظلم کے خلاف مزاحمت کا حق ہم سے چھینا جا رہا ہے، جو اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور اس کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نظریں چرائے بیٹھی ہے، اور دعویٰ کرتی ہے کہ ہم امن پسندانہ اقدار رکھتے ہیں۔ یہ ہماری بنیادی ترین ذمہ داری سے پہلو تہی ہے: یعنی ایک دوسرے کے تحفظ کرنے کے فرض سے۔

ہم حقوقِ نسواں کی فلسطینی کارکن کی حیثیت سے یہ لکھ رہی ہیں کہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ فلسطین اپنے وجود کا حق رکھتا ہے۔ فلسطین پہلے سے موجود ہے اور اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا ۔

فلسطینی خواتین کی حیثیت سے ہمیں دہرے جبر کا سامنا ہے۔ ہم ایسی پدر شاہی معاشروں کے تلے دبے ہوئے ہیں کہ جو ہمیں اپنے جسم، اپنی زندگی اور اپنے مستقبل کے حوالے سے خود فیصلے کرنے کے حق سے محروم کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر فلسطینی مزاحمت کی اکثر تصاویر مردوں کی دکھائی جاتی ہیں۔ لیکن فلسطینی خواتین نے اس مزاحمت میں ایک انقلابی کردار ادا کیا ہے۔ اور فلسطینی خواتین نے روایتی اور قدامت پسند حلقوں کے تمام تر اعتراضات کے باوجود اور حقوق نسواں اور بنیادی آزادی کے خلاف مزاحمت کی ہے، یہاں تک کہ اس وقت بھی ہم اپنے بھائیوں کے ساتھ اسی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ کیا ہم آزادی کی حقدار نہیں؟

فلسطینی خواتین اپنے وجود کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وہ غزہ کی بحالی کے دوران میدانِ عمل میں ہیں، حقیقی اور علامتی تباہی کے داغ مٹا رہی ہیں اور ایک بار پھر زندگی کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ گرفتار کارکن مونا کرد شیخ جراح میں رہتی ہیں۔ ان کے خاندان کو بھی اسرائیلی حکام کی جانب سے انخلا کی دھمکی دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مونا مغربی کنارے میں قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کا چہرہ بن گئی ہیں اور انہوں نے شیخ جراح کی داستان دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ فلسطینی صحافی مونا حوا نے بھی سوشل میڈیا کی طاقت کا استعمال کیا تاکہ غزہ اور القدس کے حالات کو سامنے لائے۔ ان کی آنکھ سے دنیا نے اس قابض طاقت کا حقیقی چہرہ دیکھا ہے۔

اور بھی بہت سی  ہیں جو نا انصافی کے خلاف اپنی آوازیں بلند کر رہی ہیں۔ فلسطین کی حقوقِ نسواں کی تحریکیں ہر جگہ اور ہر میدان میں مصروفِ عمل ہیں۔ اور اس کے باوجود ان کی کاوشیں تسلیم نہیں کی جاتیں – بلکہ بڑے پیمانے پر انہیں خود فلسطینی معاشرے میں تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جب بات آزادئ فلسطین کی جدوجہد کی ہوتی ہے تو ہم خواتین کے مسائل کو سیاسی، سماجی و معاشی منظر ناموں سے جدا نہیں کر سکتے۔ خواتین اور لڑکیاں دیگر مظلوم طبقات کی طرح ایسے کشیدہ حالات میں سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ فلسطین میں نہ صرف انہیں گرفتاری، نظر بندی، حراست بلکہ اِس دوران جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، صرف اپنی حقوق کی جنگ کی وجہ سے، اور محض اس لیے کیونکہ وہ خواتین ہیں۔

دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو شانہ بشانہ ہو کر بیک آواز کہنا پڑے گا کہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ لازماً تھمنا چاہیے۔ فلسطینیوں کے محاصرے کے خاتمے، انسانی حقوق کی بحالی اور جبری انخلا کے خاتمے کے ذریعے ان کے ملکیت کے حق کو تسلیم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر اتفاق کرنا ہوگا اور اس کا طریقِ کار لاگو کرنا ہوگا۔ کیونکہ فلسطین کی آزادی کے بغیر ہم کبھی حقیقتاً آزاد نہیں ہو سکے۔

آخر میں ترقی پسند سیاست دانوں کو فلسطین کے معاملے پر اپنی حکومتوں کو قائل کرنا ہوگا اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے مطالبات کرنا ہوں گے۔ ہمیں اس تباہی اور کووِڈ-19 کے اثرات کے باعث بنیادی سروسز کی تعمیرِ نو میں مدد درکار ہے، خاص طور پر صحت کی سہولیات کے حوالے سے۔

جنگ بندی کا مطلب ہے کہ غزہ میں آج کے دن تو عوام کے سر پر بم نہیں برسیں گی۔ لیکن کل، کہ جب دنیا کی توجہ دیگر معاملات پر ہو جائے گی، اسرائیل کا قبضہ تب بھی برقرار رہے گا اور فلسطینیوں کی زندگیاں ایسے ہی محدود رہیں گی کہ انہیں نے کس طرح اور کہاں رہنا ہے۔ اگر زندہ رہے تو!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے