کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں مقامی شخص نے مذہبی تعصب کی بنیاد پر مسلمان خاندان کے چار افراد کو گاڑی تلے روند کر ہلاک کردیا، اس واقعے میں خاندان کا صرف ایک نو سال کا بچہ زندہ بچ پایا ہے جو ہسپتال میں داخل ہے۔ یہ واقعہ اتوار کی شام اونٹاریو کے شہر لندن میں پیش آیا تھا جب 20 سالہ ناتھانیئل ویلٹ مین نے سڑک کنارے چہل قدمی کرتے خاندان پر اپنی گاڑی چڑھا دی۔ مرنے والوں میں 46 سالہ فزیوتھراپسٹ سلمان افضل، ان کی اہلیہ مدیحہ سلمان، پندرہ سالہ بیٹی یمنیٰ سلمان اور 74 سالہ ضعیف والدہ شامل ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اسی خاندان کے نو سالہ فائز سلمان زیرعلاج ہیں مگر ان کی جان کو خطرہ نہیں ہے۔
واقعہ اسلاموفوبیا کا نتیجہ؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے پاکستانی خاندان کے خلاف مذہبی تعصب کی بنیاد پر کیے جانے والے دہشتگردی کے اس عمل کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جارہی ہے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ یہ ایک دہشتگردی کا واقعہ اور کینیڈین معاشرے کا امتحان ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے مغربی ممالک میں پھیلنے والے’اسلاموفوبیا‘ کی ایک کڑی قرار دیاہے۔
اونٹاریو کے علاقے لنڈن میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان کینیڈین خاندان کے قتل پر بے حد افسردہ ہوں۔ دہشت گردی کا یہ قابل مذمت اقدام مغربی ممالک میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کی علامت ہے جس کے (اسلاموفوبیا) تدارک کے لئے عالمی برادری کی جانب سے کلی طور پر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) June 8, 2021
جبکہ کینیڈا کے وزیراعظم نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ "ہم لندن کی مسلم کمیونٹی اور پورے ملک میں موجود مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اسلاموفوبیا کی یہاں کوئی جگہ نہیں ہے۔ خاموشی سے پنپنے والی یہ نفرت نقصان دہ اور انتہائی شرمناک ہے۔ اسے ختم ہونا ہو گا”۔
To the Muslim community in London and to Muslims across the country, know that we stand with you. Islamophobia has no place in any of our communities. This hate is insidious and despicable – and it must stop.
— Justin Trudeau (@JustinTrudeau) June 7, 2021
کینیڈا میں مسلمانوں کے خلاف دہشتگردی کے واقعہ نےایک بار پھر دنیا بھر کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ دو سال قبل نیوزی لینڈ میں ہونے والے سانحے کے بعد ایک بار پھر سوال اٹھ رہا ہے کہ "اسلاموفوبیا” کاعفریت، جو پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، اس کو ہمیشہ کے لیےکیسے ختم کیا جائے۔
اسلاموفوبیا ہے کیا؟
فوبیا ،نفسیاتی عارضے کو کہتے ہیں، اس کا مطلب کسی چیز سے خوف کھانا ہے، مختلف انسان مختلف نوعیت کے فوبیا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح نسبتاً نئی ہے۔ اس کے تاریخی پس منظر پر نظر ڈالیں تو یہ مرض دوسری جنگ عظیم کے بعد سےمغرب میں پنپ رہا ہے۔ اسلاموفوبیا کے مرض کی ایک بڑی وجہ مغرب کا پرانا خوف ہے کہ اسلام بہت تیزی سے پورے مغرب بالخصوص یورپ اور امریکہ میں پھیلنے لگا، (اس کی بظاہر وجوہات اسلام کا عالمگیری نظام اورآفاقی پیغام ہے،جس میں مسلمانوں کی کاوشیں بھی شامل تھیں)۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ اکیسویں صدی کے وسط تک اسلام یورپ کا دوسرا بڑا مذہب بن جانے کے بعد بہت جلد عیسائیت کے قریب پہنچ جائے گا۔ اسی طرح امریکہ میں بھی یہ خدشہ پیدا ہوگیا تھا کہ اسلام امریکہ کا دوسرا بڑا ریاستی مذہب بن سکتا ہے۔
اسلام کی تیزی سے بڑھتی مقبولیت نے مغرب اور مغرب کے پالیسی سازوں کو بیک فٹ پر کردیا اور وہ ایک خاص مائنڈ سیٹ کے تحت اسلام کے پھیلاؤ کو ایک خطرہ سمجھنے لگے۔ ایک وقت تک امریکہ (اپنے مفاد کی خاطر)افغانستان میں مسلمانوں کی مسلح جدوجہد کو جہاد کا نام دیتا رہا تاکہ روس کا پتہ صاف کرا سکے۔ نوے کی دہائی میں روس کے ٹکڑے ہونے کے بعد مفادات بدلے تو الفاظ کے معنی بھی بدل گئے، وہی جہاد، امریکہ کو اپنے مستقبل کے لیے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ اسی لیے انہوں نےعالمی سطح پر مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی کا آغاز کیا اور دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والی مسلمانوں کی مسلح جدوجہد کودہشت گردی سے جوڑنا شروع کیا۔
2001 کے بعد اسلاموفوبیا کی ٹرم بہت کثرت سے استعمال کی جانے لگی جس کا مقصد لوگوں کو یہ یقین دلاناتھا کہ مسلمان تشدد پسند لوگ ہیں، اور مرنے مارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ اس منفی مہم سازی کے نتیجے میں مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا ہوئی جسے اسلاموفوبیا کہتے ہیں۔
کینیڈا میں پیش آنے والا تازہ ترین واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس کی بنیاد نفرت کا وہ بیج ہے جو گزشتہ دہائیوں سے مغرب نے خود کاشت کر رکھا ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کینیڈین وزیراعظم نفرت کی اس آگ کو کیسے بجھا پاتے ہیں۔
اِدھر قومی اسمبلی میں کینیڈا واقعہ کے تناظرمیں اسلاموفوبیا کی گونج سنائی دی۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مغربی ممالک اسلاموفوبیا کے سامنے بند باندھنے کیلئے اقدامات کریں، احسن اقبال نے تجویز دی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی، بین الاقوامی پارلیمانی یونین کے ساتھ مل کر انٹرنیشنل کانفرنس بلائے تاکہ دنیا کی تمام پارلیمنٹس کو اسلاموفوبیا کے مسئلے پر اپنا ہمنوا بنا سکیں۔ وزیرخارجہ نے تجویز کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ دفتر خارجہ اسلاموفوبیا کے معاملے پر فوری تجاویز دینے کو تیار ہے۔
جواب دیں