افرادی قوت (ورک فورس) کا حصہ بننے کے لیے خواتین نے ایک طویل اور بھرپور جدوجہد کے بعد موجودہ مقام حاصل کیا ہے۔ تعلیم، افرادی قوت میں حصہ اور آمدنی میں اضافے جیسی سہولیات ملنے میں تاریخی واقعات نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے، مثلاً دوسری جنگِ عظیم کے دوران خواتین کو مجبوراً افرادی قوت کا حصہ بنانا پڑا۔ اب کووِڈ-19 کی وبا اس سمت میں خواتین کی پیش رفت کے لیے ایک اور سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
اس وائرس کی پھیلائی گئی تباہ کاریاں اپنی جگہ، لیکن اس کے نتیجے میں کام کے حوالے سے لچک کے رویّے نے امید کی ایک کرن پیدا کی ہے، جو دہائیوں سے خواتین کا مطالبہ تھا۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا ہے اور صنفی بنیادوں پر تنخواہوں میں فرق کم کرنے کے لیے جو تحریک چل رہی ہے، اس سے لگتا ہے کہ خواتین کو نئے مواقع میسر آئیں گے۔
ہو سکتا ہے یہ بات قرینِ قیاس نہ لگے کیونکہ وائرس کے آنے کے بعد ابتدائی طور پر خواتین کو بہت دھچکا لگا تھا اور انہیں اپنے روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے تھے اور کئی ایسی تھیں کہ جنہیں بچوں کے اسکول بند ہونے کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال کی خاطر ملازمتیں چھوڑنا پڑیں۔ لیکن اب خواتین اس دھچکے سے کافی حد تک بحال ہو چکی ہیں اور لیبر مارکیٹ میں موجود مختلف مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔
غور کیجیے کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران کیا ہوا تھا؟ کام کرنے کی عمر رکھنے والے مردوں کی بڑی تعداد کے جنگ پر چلے جانے سے افرادی قوت میں ایک خلا پیدا ہوا جسے پُر کرنے کے لیے خواتین کی ضرورت پڑی۔ لیکن جنگ کے خاتمے کے بعد بھی افرادی قوت کا حصہ بننے والی خواتین کی نصف تعداد بدستور کام سے وابستہ رہی۔ یوں خواتین کو مستقل فائدہ پہنچا۔
اسی طرح کووِڈ-19 کی وجہ سے فاصلہ رکھنے کی لازمی شرط نے اداروں کو مجبور کیا ہے کہ وہ ریموٹ ورک ٹیکنالوجی کو قبل کریں یعنی اب کام کی جگہ پر آئے بغیر کام کیا جا سکتا ہے۔ کووِڈ-19 کی وجہ سے ضروری بن جانے والی ریموٹ ٹیکنالوجی اور دیگر پالیسیاں اب لمبے عرصے تک برقرار رہیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ ادارے زیادہ لچک دار اور دُور بیٹھے کام کرنے کے آپشنز کو برقرار رکھیں گے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر اقدامات کا کوئی نقصان نہیں بلکہ اس سے کام کرنے والوں کی پیداواری صلاحیت بڑھ رہی ہے۔
آج تک مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کم تنخواہ ملنے کی سب سے بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ وہ ماں کی حیثیت سے اپنی گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے کم دورانیہ کا کام چاہتی ہیں اور اوقاتِ کار میں لچک کی خواہش مند ہوتی ہیں۔ لیکن اب موجودہ صورتِ حال میں اوقاتِ کار میں جو لچک مل رہی ہے، وہ خواتین کے لیے آئیڈیل صورتِ حال بن چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مردوں کی ہمہ وقت گھر پر موجودگی سے خواتین کو موقع ملا ہے کہ انہیں اپنی گھریلو سرگرمیوں کا حصہ بنائیں اور یوں خواتین پر گھریلو کاموں کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی کم ہوا ہے۔
کووِڈ-19 نے انتہائی ضروری اور اہم کاموں کے لیے متبادل کی تلاش کو بھی آسان بنایا ہے مثلاً طب کے شعبے میں دیکھ لیں کہ جہاں ٹیلی ہیلتھ بڑھتی جا رہی ہے اور ریکارڈز کے عمل کو ڈجیٹائز کرنے سے ایک کی جگہ دوسرے ڈاکٹر سے مشاورت آسان ہو گئی ہے۔ پاکستان میں وہ خواتین کہ جو اپنی ازدواجی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے ڈاکٹری کی پریکٹس جاری نہیں رکھ پاتیں، ان کے لیے یہ سنہری موقع ہے اور وہ اس کا فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔ یہ رجحان دوسری صنعتوں میں بھی نظر آ رہا ہے اور امید ہے کہ اس سے خواتین کی افرادی قوت میں شمولیت اور صنفی بنیاد پر تنخواہوں میں موجود فرق کم ہوتا چلا جائے گا۔
جواب دیں