اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت (یونیسکو) نے زور دیا ہے کہ خواتین دنیا بھر میں تخلیق ور ثقافت کے شعبے میں اب بھی بھرپور نمائندگی نہیں رکھتیں بلکہ کووِڈ-19 نے معاملات کو مزید خراب کر دیا ہے۔
یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں شائع ہوئی ہے جب اقوامِ متحدہ 2021ء کو پائیدار ترقی کے لیے فنونِ لطیفہ کے بین الاقوامی سال کی حیثیت سے منا رہا ہے۔ یہ رپورٹ جس کا عنوان "صنف اور تخلیق” ہے، یونیسکو نے سوئیڈن کی حکومت کی مدد سے تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فنونِ لطیفہ سے وابستہ خواتین اب بھی تخلیق اور ثقافت کے شعبوں میں مختلف رکاوٹوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ "ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ خواتین فنکاروں اور تخلیق کاروں کو کئی رکاوٹوں کا سامنا ہے جن میں نمایاں ترین اچھے کام تک برابر کی رسائی، مناسب اجرت اور قائدانہ حیثیت نہ ملنا ہیں۔
رپورٹ زور دیتی ہے کہ ثقافتی اظہار میں حقیقی گونا گونی پیدا کرنے اور فنونِ لطیفہ میں روزگار کے یکساں مواقع پیدا کرنے کے لیے صنفی مساوات ضروری ہے۔
ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے عروج نے بھی صنفی مساوات کو نئی جہتیں دی ہیں۔ کووِڈ-19 نے آن لائن کام کو زندگی کا حصہ بنایا تو وہی صنفی بنیاد پر تشدد، آن لائن کلاسز میں لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے لے کر خواتین ملازمین کی سماجی اور معاشی مدد کرنے کی اہلیت کا محدود ہونا تک شامل ہے۔
ڈجیٹل تقسیم (digital divide) اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس میں خواتین کو تخلیقی کام کرنے اور اسے تقسیم کرنے کے لیے ڈجیٹل ٹولز تک رسائی میں رکاوٹوں کا سامنا ہے، مثلاً موسیقی کے پلیٹ فارمز، آن لائن ٹیوٹوریلز اور ساؤنڈ مکسنگ سافٹ ویئرز میں۔ مثلاً ایک اندازے کے مطابق مردوں اور خواتین انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے درمیان 25 کروڑ کا فرق ہے اور اتنی بڑی تعداد میں خواتین رسائی جیسے بنیادی معاملے میں مردوں سے پیچھے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکا میں الیکٹرانک میوزک فیسٹیولز میں خواتین صرف 21 فیصد نمائندگی رکھتی ہیں۔
رپورٹ دنیا بھر میں صنفی تحفظ اور بہبود کا جائزہ بھی لیتی ہے اور بتاتی ہے کہ خواتین فن کار اور تخلیقی ماہرین ہراسگی، دھونس دھمکیوں اور استحصال کا مسلسل ہدف ہیں۔
کووِڈ-19 کے حوالے سے رپورٹ کہتی ہے کہ اس میں صنفی عدم مساوات بڑھا ہے، البتہ خواتین نے بحران کے خلاف بھرپور رد عمل ظاہر کیا ہے۔
اب قانون سازی میں صنفی تناظر شامل نہیں کیا گیا تو کووِڈ-19 ثقافتی اور تخلیقی صنعت پر صنفی لحاظ سے بھرپور اثرات ڈالے گا کیونکہ خواتین ایسے شعبہ جات میں ویسے ہی غیر امتیازی سلوک کا سامنا کرتی ہیں کہ جو وبا سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ثقافتی اظہار کے تحفظ اور فروغ اور جمالیاتی آزادی کے لیے یونیسکو کے کنونشن کے پابند ہیں۔
جواب دیں