ایک پاکستانی خاتون اس وقت انٹرنیٹ پر خاصی مقبول ہو گئی ہیں کیونکہ انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ سوالات و جوابات کے براہِ راست سیشن میں شکایت کی تھی کہ کرایہ دار نے ان کے گھر پر قبضہ کر لیا ہے اور گھر خالی اور واجبات ادا کرنے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔ انہوں نے عدالتی نظام میں اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا تاکہ ان جیسے لاکھوں افراد کی مدد ہو سکے۔
عائشہ مظہر ایک تین سال کے بچے کی ماں ہیں، جنہوں نے گزشتہ اتوار کو وزیر اعظم سے رابطہ کیا تھا اور بتایا تھا کہ کرایہ دار نے ان کا گھر خالی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسے ساڑھے 4 لاکھ روپے کرایہ بھی ادا کرنا ہے اور وہ پولیس میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے گھر پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے۔
اپنے حالیہ انٹرویو میں عائشہ نے بتایا ہے کہ وزیر اعظم سے بات کے فوراً بعد مجھ سے رابطہ کیا گیا اور پتہ اور دیگر تفصیلات معلوم کرنے کے بعد اس معاملے کو جلد از جلد حل کرنے کا وعدہ کیا گیا۔ کچھ ہی دن بعد مجھے میرے تمام بقایا جات مل گئے اور یہ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔
انہوں نے حکومت کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی اصلاحات کا بھی مطالبہ کیا اور سوال اٹھایا کہ "کیا ہم عوام کو ایسی کسی بھی صورت حال کا سامنا کرنے پر ہمیشہ وزیر اعظم سے رابطہ کرنا پڑے گا؟”
کوئٹہ میں رہنے والی عائشہ نے بتایا کہ ان کی والدہ نے لاہور کی ڈی ایچ اے رہبر ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک گھر خریدا تھا، جو 2019ء میں عمران اصغر نامی ایک شخص کو کرائے پر دیا گیا جو بعد ازاں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) کا بھائی نکلا۔ بعد ازاں، نہ صرف وہ کرایہ نہیں دیتا تھا بلکہ بار بار کے مطالبات کے باوجود گھر خالی کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
عمران اصغر نے عدالت سے حکمِ امتناعی بھی حاصل کر لیا تھا، جس کی بدولت اسے لا محدود عرصے کے لیے گھر پر قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ کوئی عدالت آخر کیسے ایسا کرنے کی اجازت دے سکتی ہے اور گھر کے اصل مالک کو بے گھر کر سکتی ہے؟
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عائشہ کا لاہور منتقل ہونا ناممکن ہو گیا۔ کہتی ہیں کہ "میں طلاق یافتہ ہوں، میرا تین سال کا بیٹا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ مجھ جیسی عورت کا کسی نئے شہر میں آنا کیسا ہوگا کہ جس کے سر پر چھت بھی نہ ہو۔” انہوں نے کہا کہ پولیس میں شکایت درج کروانے گئی تو وہاں ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی جب کرایہ دار نے میرے خلاف تھانے میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کی اور کسی افسر کو یہ توفیق نہیں ملی کہ اسے روکے۔ اس پوری صورت حال کا میری والدہ کی صحت پر بہت برا اثر پڑا یہاں تک کہ انہیں کینسر ہو گیا۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ پارلیمنٹ کے کئی اراکین کے پاس گئی، میڈیا کے اداروں سے رابطہ کیا، لیکن کوئی ہماری مدد کو نہیں آیا۔”
عائشہ نے لاہور کے سابق سی سی پی او عمر شیخ کو سراہا کہ جنہوں نے گزشتہ سال دسمبر میں گھر تو خالی کروا لیا تھا لیکن اصغر گزشتہ دو سال کا کرایہ دینے سے انکاری تھا، جو ساڑھے 4 لاکھ روپے سے زیادہ بنتا ہے۔
نئے سی سی پی او لاہور محمود ڈوگر تسلیم کرتے ہیں کہ اس معاملے کو مس ہینڈل کیا گیا۔ یہ بالکل سادہ معاملہ تھا۔ ایک گھر پر ناجائز قبضہ ہوا اور کرایہ دار گھر خالی نہیں کر رہا تھا۔ لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے یہ معاملہ پھنستا چلا گیا کیونکہ فریقین نے ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں مقدمات دائر کر رکھے تھے اور ہم عدالت کے احکامات کے پابند تھے۔”
انہوں نے کہا کہ پولیس نے سال کے آغاز سے غیر قانونی قبضہ گیروں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے اور 350 سے زیادہ پلاٹوں سے قبضے چھڑائے گئے اور انہیں اصل مالکان کے حوالے کیا گیا۔
پولیس ترجمان محمد عارف کے مطابق ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ ایسے مقدمات سامنے آتے ہیں اور انہیں قانون کے مطابق حل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ تھا کہ جس میں صورتحال بگڑتی چلی گئی اور مظلوم کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس انتظامیہ نے تمام تھانوں کو ایسے معاملات ترجیحاً نمٹانے کی ہدایت کی ہے۔
عائشہ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عمران خان پولیس اور عدلیہ میں اصلاحات کے لیے بہترین اقدامات اٹھائیں گے اور ان لاکھوں لوگوں کو سکون کا سانس دیں گے جو انصاف میں تاخیر کے ہاتھوں پریشان ہیں اور اپنے مقدمات کے فیصلوں کے منتظر ہیں۔
جواب دیں