کیا ملالہ یوسفزئی شادی کریں گی؟ اگر، کریں گی ،تو کب کریں گی؟ جب کریں گی تو کیااپنی پسند سے کریں گی ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کم وبیش ہر لڑکی کو عمر کی ایک خاص حد پار کرتے ہی سننے کو ملتے ہیں۔اور جب تک یہ قصہ تمام نہیں ہوجاتا ، یہ سوالات اس کا پیچھا کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر کہیں کوئی بڑھتی عمر تک یہ فریضہ سرانجام نہ دے تو پھر سوالوں کی شدت اور طنز کی حدت بڑھ جاتی ہے۔ شادی کتنی ضروری ہے، اور کیا اتنی ضروری ہے کہ لوگ آپ سے بار بار اس بارے میں پوچھیں۔ یہ سوال ہم نے کیا نتاشا شاہ سے۔
نتاشاقائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے اینتھروپالوجی میں ماسٹرز کرچکی ہیں، ورجینیا ٹیک ، امریکہ سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں اور واشنگٹن ڈی سی میں عالمی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں۔ اورجب بات ہوتی ہے نجی حوالے سے تو پھر پہلا سوال ان سے یہ کیا جاتا ہے کہ آپ شادی کب کررہی ہیں؟ اتنی زبردست تعلیمی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی حامل نتاشا شاہ سے یہ سوال کتنی بار پوچھا جاتا ہے اور اس موضوع سے جڑے بہت سے سوالوں کے جواب نتاشاشاہ نے دی بلائنڈسائیڈ میں نیلم اسلم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کچھ یوں دیے۔
لوگ آپ سے شادی کے بارے میں کتنی بار پوچھتے ہیں؟
بہت زیادہ، یہ سوال عام طور پر ہمارے معاشرتی رویوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جہاں ہم زندگی میں کچھ بھی کرنے کے لئے عمر کی حدود طے کرتے ہیں۔ 30 سال شادی کے لیے ایک دقیانوسی عمر ہے ،لیکن ہمارے معاشرے میں اس سے پہلے ہرحال میں لڑکی کی شادی کرنی ہوتی ہے۔اور اگر شادی کا یہ "صحیح وقت” گزر گیا تو عورت کے لئے شادی کرنا مشکل ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔ پھر یہ فیملی اور معاشرے کی بنیادی پریشانی بن جاتا ہے کہ جیسے شادی ہی زندگی کا کلیدی مقصد ہو۔
عام طور پر ، ہمارے والدین معاشرتی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے معاشرے کے معیارات پر قائم رہیں جس میں وہ رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ، والدین اپنے عدم تحفظ اور دباؤ کو بچوں تک منتقل کرتے ہیں ، کیا آپ بھی اس سے گزر چکی ہیں؟
جی ہاں بالکل! اگرچہ والدین اپنے بچے کی زندگی کے بارے میں حقیقی طور پر تشویش محسوس کرتے ہیں، لیکن عدم تحفظ کا یہ احساس معاشرے کےباعث ہوتاہے۔ ایک لڑکی کی حیثیت سے ، ہمیں اپنی زندگی کا انتخاب کرتے ہوئے یہ مدنظر رکھنا ہوتا ہے کہ معاشرہ اسے قبول کرے گا یا نہیں۔ اسی لیے جب میں نے پاکستان سے اپنی جائے پیدائش امریکا واپس جانے کا سوچا تواپنے اہل خانہ کو راضی کرنا میرے لیے واقعی مشکل تھا۔ میری والدہ ہمیشہ سے نوجوان لڑکی کو اکیلے بیرون ملک بھیجنے پر لوگوں کے تبصروں سے خوفزدہ رہتی تھیں، لیکن اس وقت میرا بھائی میرے لئے ایک سپورٹ بن کر سامنے آیا۔ اس نے مجھےامریکہ کی ایک یونیورسٹی میں اپنے ماسٹرز کے لئے درخواست دینے کی ترغیب دی اور میں نے اپنی والدہ کو بتائے بغیر تمام کارروائی مکمل کرلی۔ آخر ، جب مجھے داخلہ ملا تو میں نے اپنی والدہ کوبتایا۔ وہ پہلے تو واقعتاً پریشان تھیں ، لیکن آخر کارانہوں نے مجھےسپورٹ کیا اور جانے کی اجازت دی۔
اب تک کا سب سے "بے حس تبصرہ "کیا ہے جو آپ نے اپنے غیر روایتی انتخاب کے سبب لوگوں سے سنا؟
لڑکی ہونے کے ناطے آپ کو معاشرے سے بے حد بے حس اور تکلیف دہ ریمارکس سننے پڑتے ہیں چاہے آپ کتنے ہی کامیاب کیوں نہ ہوں ، کچھ بھی حاصل کرلیں۔ میں نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ اب آپ کی عمر 36 سال ہوچکی ہے ، آپ کو جیون ساتھی نہیں ملنے والا ، اور اگر آپ چاہتی ہیں تو پھر آپ کو پچاس یا ساٹھ سال کے افراد(زیادہ تر رنڈوے) ہی دستیاب ہوں گے اور مجھے ان کے لئے گھربساناپڑے گا۔
آپ کے دوست( خاص طور پر شادی شدہ ) کتنے معاون ثابت ہوئے ہیں، یا انہوں نے کبھی شادی کرنے کے لئے آپ پر دباؤ ڈالا ہے؟
ایمانداری کے ساتھ ، میرے شادی شدہ دوست اپنی شادی کے تجربات کے مطابق مجھے زیادہ تر اکیلا رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ انہوں نے مجھے اپنی ازدواجی زندگی کی مشکلات کے بارے میں بتایا اور وہ مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ میں کنواری رہوں اوراپنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف اٹھاؤں۔ لیکن یقیناً ، ان میں سے کچھ افراد مجھے معاشرے کے مطابق چلنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
زیادہ عجیب صورتحال تب ہوتی ہے جب آپ کے تمام دوستوں کی شادی ہوجاتی ہے اوروہ سب اپنے بچوں ، اپنے ازدواجی تجربات کے بارے میں بات کرتے ہیں توپھر آپ کو بے کار اور غیر متعلق شخص سمجھا جاتا ہے کیونکہ آپ اس حوالے سے کچھ بھی شیئر نہیں کرسکتے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ زندگی میں ہر کام کرنےکے لیے وقت کی حدود جن پر ہم یقین کرتے ہیں ، انہیں معاشرے خود ہی قائم کرتے ہیں اور در حقیقت یہ کوئی عالمگیراصول نہیں ہے کہ ہر کوئی آنکھیں بند کرکے اس کی پیروی کرے؟ اور ایسا کیوں ہے کہ بہت پڑھے لکھے افراد بھی اپنی بیٹیوں کی زندگی کےفیصلوں کو لے کر بہت محتاط رہتے ہیں اور اس پر کنٹرول رکھتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں جبری طور پر خواتین کو گھر تک محدود کردیا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ظلم اور خواتین کو ان کے بنیادی حق تعلیم اور پیشہ ورانہ کیریئر سے محروم کرنے کے پیچھے خوفزدہ مرد ہی ہیں ، اور بجائے اس کے کہ مردوں کو خواتین سے برتاؤ کرنے کی تعلیم دی جائے ، ہم اپنی لڑکیوں کو گھر پر رہنے کو کہتے ہیں۔ وقت کی حدکی آپ نے بات کی، ہماری مذہبی تاریخ میں ایک مثال موجود ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ ، جن کی عمر 40 سال تھی ، انہوں نے عمر کی حداور اس سے بھی بڑھ کر صنف کے کردار کو نظرانداز کیا اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوخود شادی کی پیشکش کی جواس وقت آپ سےعمر میں 15 سال چھوٹے تھے۔ لیکن آج، پاکستان میں کچھ خواتین اگرایساکرنے کے بارے میں سوچ بھی لیں تو ہمارے معاشرے کو ہنگامہ کھڑا کرنے میں صرف ایک منٹ لگے گا۔
کیا آپ کا بھائی آپ کے شادی نہ کرنے کے فیصلے کی حمایت کرتا ہے؟ اور اگر کسی دن اس کی شادی ہوجائے گی تو پھر آپ کے رشتہ دار آپ کی شادی کو لے کر دوبارہ سے سوالات اٹھائیں گے، کیا آپ ایسی صورتحال کے لیے تیارہیں؟
میں جو بھی فیصلہ کرتی ہوں، میرا بھائی اس میں میراساتھ دیتا ہے۔ ہماری والدہ نے ہماری ایسی پرورش کی ہے جو صنفی امتیازسے مبرا ہے۔ وہ زندگی کے بارے میں بہتر نظریہ رکھتی ہیں لیکن بعض اوقات وہ معاشرے کے دباؤ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ میرے بھائی کی شادی اگلے سال ہوجائے گی ، اور میں ذہنی طور پر خود کو لوگوں کے زہریلے تبصرے سننے کے لیے تیار کررہی ہوں ، مثال کے طور پر ، وہ مجھ سے پوچھیں گے کہ میں کب شادی کرنے کا سوچ رہی ہوں اور وہ میری شادی کے لئے دعا کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ معاشرے سے ہٹ کر کھڑے ہونے کا فیصلہ کرلیں، تو پھر اپنے آپ کو ذہنی طورپر تیارکرلیں کہ آپ نے معاشرے کے زہریلے پن اور ایسے لوگوں سے خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے جو دوسروں کی زندگی کے معاملات میں اپنی ناک اور ٹانگ اڑانا پسند کرتے ہیں۔ ویسے میں خود کواس صورتحال سے محفوظ تصور کرتی ہوں کیونکہ دل کی گہرائی سے میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہورہی ہوں اور بہت خوش ہوں۔ البتہ لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی کوئی پیمانہ نہیں ہے،اس بات کی پیمائش کا کہ انسان کتنا کامیاب یا مکمل ہے۔ ہم شادی کے بعد بھی لوگوں کو تکلیف میں دیکھتے ہیں، شادیاں بعض اوقات ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ یہ تصور کہ شادی سے ہی انسان مکمل ہوتا ہے ، ہمیں اس کو ختم کرنے کی ضرورت ہے اور زندگی میں مقصدیت لانے کی ضرورت ہے۔ شادی زندگی کا ایک حصہ ہے ،ہمیں اسےایسا مرکزی نکتہ نہیں بنانا چاہیے کہ جس کے گرد ہماری زندگی گھوم رہی ہو۔
آپ اپنی زندگی کے ساتھی میں کیا خوبیاں ڈھونڈتی ہیں؟
مینوں بندے دا پتر چاہیے(مجھے ایک عام انسان چاہیے) ۔ جیون ساتھی منتخب کرنے کے لئے میرے پاس کوئی خاص دنیاوی معیار نہیں ہے ، کیونکہ میں پہلے ہی اپنی دنیا بناچکی ہوں اور مالی طور پرخودکفیل ہوں۔ لہذا میں جو کچھ اپنے زندگی کے ساتھی میں دیکھتی ہوں وہ یہ ہے کہ اسے بھی باعزت، مہذب اور بلند نظر ہونا چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں شادی کو سرمایہ دارانہ منصوبے کے طور پر لینے کی بجائے دانشمندانہ فیصلے کریں ، تو ہمیں انہیں تعلیم دینے اور معاشی طور پر خود کفیل بنانے کی ضرورت ہے ، تب ہی وہ صحیح انتخاب کرسکیں گی جس کی بنیاد مطابقت ، باہمی احترام اور محبت پر ہوگی۔
کیا کسی نے آپ کا دل توڑا ہے یا کسی نےتعلق بنانے کے ارادے سے آپ سے رابطہ کیا ہے؟
ہاں ، میں نے اپنی زندگی میں دو بار منگنی کی ہے۔ دوسرا منگیتر تو بہت زیادہ کنٹرول کرنے والا تھا، اور لوگوں کو اس کی بغض اور کینہ پرور جبلت کے حوالے سے اعتماد میں لینا میرے لئے بہت مشکل تھا۔ لیکن شکر ہے کہ میں اس وقت امریکہ میں رہ رہی تھی، اس لئے اُس شخص سے اپنی منگنی ختم کرنا میرے لئے آسان ہو گیا ۔ اگر میں پاکستان میں رہ رہی ہوتی تو شاید میں معاشرے کے دباؤ کا شکار ہوجاتی۔ بدزبانی اور جیون ساتھی پر حاوی ہونے والے طرز عمل کے اس تجربے نے مجھے سخت صدمے سے دوچار کیا، اور میں اس طرح کے کسی بھی رشتے کے لیے راضی نہیں ہوسکتی تھی ، اس لیے میں نے شادی کے پروپوزل دیکھنا ہی چھوڑ دیے۔ میں دوبارہ اُس طرح کے زہریلے تجربے سے دوچار نہیں ہونا چاہتی۔اگر میں نہیں جانتی کہ میں اپنی زندگی سے کیا چاہتی ہوں ،تو کم از کم میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ میں اپنی زندگی سے کیا نہیں چاہتی ہوں۔
ہم زندگی کے ہر شعبے میں مغربی ثقافت پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، لیکن جب بات رشتہ ٹوٹنے پر آتی ہے تو ، ہم مکمل طور پر غیر مہذب ہوجاتے ہیں ، کسی کی عزت کا خیال نہیں کرتے اور انتہائی نچلے درجے کے فقروں کا استعمال دیکھنے میں آتا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں؟
ہم مغربی تہذیب سے کبھی بھی کچھ اچھا نہیں سیکھتے ہیں۔ علیحدگی یاطلاق یقینی طور پر ایسا عمل ہے جس کے لیے ہمیں مغربی جوڑوں کی طرف دیکھنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ بغیر کسی لڑائی جھگڑے کے کتنی آسانی سے یہ معاملہ طے کرلیتے ہیں۔ مشرقی معاشرے میں طلاق کو ممنوع سمجھا جاتا ہے حالانکہ ہمارے مذہب میں بھی طلاق کی اجازت ہے کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کا ساتھی آپ کے لئے ٹھیک نہیں تو آپ اس سے علیحدہ ہوجائیں۔ لہذاتکلیف دہ شادیوں کی وجہ سے اپنی پوری زندگی برباد کرنے کی بجائے بہتر ہے کہ آپ شائستہ طریقے سے ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مغربی جوڑے ایک دوسرے کو طلاق دینے کے باوجود بھی بچوں کی وجہ سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھتے ہیں۔ ہمیں واقعتاً ان سے یہ طرز عمل سیکھنے کی ضرورت ہے۔
آپ آنے والے 5 سالوں میں اپنی زندگی کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
میں یقینی طور پر اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بہتری لانا چاہوں گی ، میں ہیومن ریسورس کی فیلڈ میں کام کرتی ہوں اور بہتر عہدوں کے حصول اور اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی منتظر ہوں۔ ایک بیٹی / بیوی / والدہ / بہن کی حیثیت سے ، میں ایک بہترانسان بننا چاہتی ہوں۔ میں ایسی انسان بننا چاہتی ہوں جو منفی سوچوں سے پاک ہو ، جو کبھی بھی اپنے آس پاس کے لوگوں کے لئے رکاوٹیں پیدا نہ کرتی ہو۔ میں آئندہ پانچ سالوں میں خود پر مزید کام کرنا چاہتی ہوں۔ شاید میں شادی کر لوں اور بچے پیدا کروں ۔ ویسے میں بچوں کو گود لینے کو ترجیح دوں گی کیونکہ ہمارے مذہب میں بھی اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
Watch her complete interview here
جواب دیں