بھارتی ریاست بہار کے دار الحکومت پٹنہ میں 19 مئی کو ایک خاتون نے پولیس میں رپٹ درج کروائی کہ شہر کے مشہور پارس ہسپتال میں عملے کے تین اراکین نے ان کی 45 سالہ والدہ پر جنسی حملہ کیا، جو کووِڈ-19 کی مریضہ تھیں اور ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے شعبے میں داخل تھیں۔ یہ وہی دن تھا جس روز ان کی والدہ کا انتقال بھی ہو گیا۔ وہ چار روز ہسپتال میں داخل رہیں اور ایف آئی آر کے مطابق اس حملے کے بارے میں متوفیہ نے 17 مئی کو اپنی بیٹی کو بتایا تھا۔
22 سالہ لڑکی کا کہنا ہے کہ جب اس حوالے سے ہسپتال انتظامیہ سے بات کی گئی تو وہ الزامات کی تردید کر رہے ہیں۔ ان کی 45 سالہ والدہ کی آخری رسومات پوسٹ مارٹم کروائے بغیر 19 مئی کو ہی ادا کی کر دی گئی تھیں۔
شہر کے شاستری نگر پولیس اسٹیشن میں معاملے کی ایف آئی آر تو درج کر لی گئی ہے لیکن اس میں جنسی حملے کے سنگین الزام کے بجائے جنسی ہراسگی کا لفظ استعمال کیا ہے۔
لڑکی نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی والدہ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا اور وہ گھر پر ہی قرنطینہ میں تھیں لیکن ایک روز اُن کا آکسیجن لیول گرنے لگا۔ جس پر 15 مئی کی صبح 7 بجے ان کی والدہ کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تو ان کا آکسیجن لیول 89 تھا۔ انہیں فوری طور پر انتہائی نگہداشت کے شعبے (آئی سی یو) میں منتقل کیا گیا۔ بیٹی کے مطابق وہ مسلسل دو دن ملاقات کے اوقات میں اپنی والدہ سے ملنے آئیں اور ان کی طبیعت بالکل ٹھیک تھیں، آکسیجن لیول بھی 94 سے 96 کے درمیان تھا اور انہیں حیرت ہوئی کہ آخر ایک مناسب آکسیجن لیول کے باوجود مریض کو آئی سی یو میں کیوں رکھا جا رہا ہے؟ "اگلے روز یعنی 17 مئی کی صبح 10 بجے مجھے پارس ہسپتال سے فون آیا کہ چند کاغذات پر آپ کے دستخط درکار ہیں، آپ کی والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں تقریباً 11 بجے ہسپتال پہنچی تو میں نے آئی سی یو میں والدہ کو دیکھا تو ان کے ہاتھ اور جسم بستر سے بندھے ہوئے تھے۔ میرے سوال پر انہوں نے کہا کہ "تین لوگوں نے میرے ساتھ غلط چھیڑ خانی کی ہے۔”
"والدہ نے بتایا کہ تینوں ہسپتال کے عملے کے اراکین تھے اور انہوں نے ایک شخص کی طرف اشارہ بھی کیا کہ وہ ان تینوں میں سے ایک تھا۔” لڑکی کا کہنا ہے کہ ماں نے نرسنگ اسٹاف کے ایک رکن کا بھی بتایا جو شام کی شفٹ میں تھا اور اس جرم میں ملوث تھا۔”
لڑکی نے اسی روز یعنی 17 مئی کو فیس بک پر ایک وڈیو ڈالی، جس میں انہیں اپنی والدہ کے بیان کو ریکارڈ کرنے کوشش کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی ماں سے اس واقعے کے حوالے سے سوالات پوچھتی نظر آئیں لیکن وہ جواب نہیں دے پا رہی تھیں کیونکہ انہیں وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا تھا۔
19 مئی کو والدہ کے انتقال کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے لڑکی نے کہا کہ ہسپتال انتظامیہ نے جنسی حملے کے الزام کے بعد زبردستی ان کی والدہ کو وینٹی لیٹر پر رکھا بلکہ جس روز انہوں نے اس حرکت کے بارے میں بتایا، اسی دن سے ان کی طبیعت بگڑتی چلی گئی۔ اگلے روز ڈاکٹروں نے بتایا کہ والدہ کومے میں چلی گئی ہیں اور 19 مئی کی صبح پونے چھ بجے ہسپتال سے کال آئی کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا ہے۔ "میرا دعویٰ ہے کہ میری ماں کی وفات پارس ہسپتال کے عملے کی غلط حرکت کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔”
لڑکی کے والد 10 سال پہلے ہی انتقال کر گئے تھے اور والدہ اس وقت چل بسی ہیں جب ان کی عمر صرف 22 سال ہے۔ ان کا ایک بھائی ہے جس کی عمر صرف 10 سال ہے۔
پارس ہسپتال ایک معروف ہسپتال ہے جس کی شاخیں پٹنہ کے علاوہ رانچی، اودے پور، پنچکولہ، دربھنگہ اور گروگرام میں ہیں۔
ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ان الزامات کا بے بنیاد اور لغو سمجھتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعہ یہ وارڈ چوتھی منزل پر واقع ہے کہ جس میں 25 بستر ہیں، جن میں سے 22 پر کووِڈ مریض موجود تھے۔ یہاں 12 رکنی عملے میں سے 7 خواتین نرسیں تھیں اور صفائی ستھرائی کے عملے میں بھی دو خواتین شامل تھیں۔ ایک گارڈ ہمہ وقت وارڈ کے باہر موجود رہتا ہے اور CCTV کیمرے بھی نصب ہیں۔ اس لیے اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آ ہی نہیں سکتا۔ خاتون نیم بے ہوشی یا غنودگی کے عالم میں کوئی واہمہ ہوا ہوگا۔
لیکن جس بات نے معاملے کو بگاڑا وہ ہسپتال کے ڈاکٹر اجے کمار کا ایک انٹرویو تھا، جس میں انہوں نے کئی معیوب باتیں کیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ کیا وہ خاتون اتنی خوبصورت تھیں؟ یا دوسرے مریضوں کے ساتھ کیوں کچھ نہیں ہوا؟ وغیرہ۔ اس بیانات پر سوِل سوسائٹی نے کڑی تنقید کی ہے۔ بہار مہیلا سماج کی صدر نودیتا جھا کہتی ہیں کیا ڈاکٹر صاحب کی باتوں سے یہ مطلب لیا جائے کہ صرف خوبصورت خواتین کے ساتھ ریپ ہوتا ہے؟ ان کا تبصرہ انتہائی دقیانوسی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے اور انہیں یہ بیان واپس لینا چاہیے۔ نودیتا نے پولیس کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ اتنے سنگین الزامات کے باوجود اس نے فوری کار روائی نہیں کی۔ نہ خاتون کا بیان لیا گیا اور نہ ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کروایا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو معاملہ زیادہ واضح ہو جاتا۔
اب لڑکی اور ان کے خاندان پر سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ متوفی خاتون کی ایک سہیلی کا کہنا ہے کہ انہیں مقدمے واپس لینے کا کہا جا رہا ہے کہ جو ہوا سو ہوا، اس معاملے کو مزید آگے نہ بڑھائیں۔
جواب دیں