آمنہ اشفاق پشاور کی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں جنسی ہراسگی کے خلاف پہلی بار آواز اٹھانے والی طالبہ ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ سال نومبر میں جامعہ کے شعبہ سیاسیات کے چیئرمین عامر اللہ خان نے انہیں اپنے دفتر بلایا۔ "میں ایک سہیلی کے ساتھ گئی، جسے انہوں نے اسے باہر انتظار کرنے کو کہا۔ پھر اس نے دروازہ بند کیا اور مجھے کہا کہ میں اس کی گرل فرینڈ بن جاؤں اور یقین دلایا کہ وہ یہ بات کسی کو نہیں بتائے گا۔ جب میں نے شائستگی کے ساتھ انکار کیا تو اس نے قریب آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ وعدہ کرو میری گرل فرینڈ بنو گی۔ میں فوراً اس کے دفتر سے بھاگ نکلی۔”
اگلے روز آمنہ نے یہ واقعہ یونیورسٹی انتظامیہ کے گوش گزار کیا۔ فیکلٹی ممبرز کی ایک کمیٹی نے اس شکایت پر غور کیا اور فیصلہ دیا کہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے اور عامر اللہ قصور وار نہیں۔ خود عامر اللہ نے کمیٹی کے روبرو ان الزامات کی تردید کی۔
آمنہ اور ان کے ساتھیوں نے اس کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا اور 11 نومبر کو سینکڑوں طلبہ نے یونیورسٹی میں زبردست احتجاج کیا اور حکومت سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔
خیبر پختونخوا جیسے قدامت پسند علاقے میں کہ جہاں اس طرح کے موضوعات پر سرِ عام بات نہیں کی جاتی، کیمپس میں جنسی ہراسانی کے خلاف یہ احتجاج اپنی نوعیت کا پہلا اور حیران کن مظاہرہ تھا۔
معاملہ صوبے کے گورنر شاہ فرمان تک پہنچ گیا، جنہوں نے تحقیقات کا حکم دیا اور اس کے لیے اپنے قریبی ساتھی ذکا اللہ خٹک کو مقرر کیا۔ لیکن تحقیقات معاملے کی گہرائی میں نہیں گئیں۔ آمنہ اور دیگر طلبہ کے مطابق اس نے تو ہراسگی کے خلاف اور کیمپس میں مجموعی طور پر ماحول کے خلاف شکایت پر بھی کچھ نہ کیا۔ صرف اور صرف ایسی عام سفارشات پیش کی گئیں کہ ایسے واقعات سے کیسے بچا جائے۔
تب ایک طالبہ ہونے کے باوجود آمنہ اشفاق نے غیر معمولی قدم اٹھایا اور صوبائی محتسب کا رخ کیا، جو خواتین کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے ذمہ دار ہیں۔ یہ پہلا واقعہ تھا جو اس سطح تک پہنچا، ورنہ اس سے پہلے بمشکل ہی کوئی یونیورسٹی انتظامیہ کی سطح تک آیا ہوگا۔ صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے کئی ماہ اس کیس پر کام کیا اور کئی طلبہ اور اساتذہ کے انٹرویوز لیے اور اپریل میں اپنا 9 صفحات پر مشتمل حتمی فیصلہ جاری کیا۔
اس فیصلے میں سفارش کی گئی ہے کہ یونیورسٹی کے بہترین مفاد میں یہی ہے کہ عامر اللہ کو خواتین کو ہراسگی سے تحفظ دینے کے قانون کے تحت ادارے سے نکالا جائے۔ "تعلیمی اداروں کے نگہبان سمجھے جانے والے کسی ‘استاد’ کے خلاف ایسا قدم اٹھانا مشکل تو ہے۔ لیکن تعلیمی ادارے کا موجودہ ماحول ایسا ہے جو جنسی ہراسگی کا نشانہ بننے والوں کے لیے سازگار نہیں۔”
آمنہ اشفاق کہتی ہیں کہ جنسی ہراسگی کے واقعات کو رپورٹ کرنے سے گھبرانے والوں کے لیے یہ ایک غیر معمولی لمحہ تھا۔ "میں چاہتی تھی کہ عامر اللہ اس عہدے سے ہٹا دیا جائے جیسا کہ فیصلہ ہوا۔ اگر وہ کام کرتا رہتا تو اور دلیر ہو جاتا اور مزید لوگ سمجھتے کہ وہ ایسی کسی حرکت کے باوجود بچ نکل سکتے ہیں۔”
لیکن عامر اللہ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف عدالت جائیں گے اور اپنا قانون حق استعمال کریں گے۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر گل مجید خان کہتے ہیں کہ وہ محتسب کے فیصلے پر تب عمل کریں گے جب صوبائی گورنر، جو جامعہ کے چانسلر بھی ہیں، ملزم کی اپیل پر اپنی رائے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم حتمی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔
لیکن طلبہ کا مطالبہ ہے کہ فیصلہ فوری طور پرنافذ کیا جائے، یعنی استاد کا یونیورسٹی سے اخراج اور مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جائیں۔
جابر خان ان طلبہ میں سے ایک ہیں جنہوں نے کیمپس میں جنسی ہراسگی کے خلاف مظاہروں میں طالبات کا ساتھ دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے پر زیادہ سے زیادہ شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر طالبات کو بھی ہراساں کیا گیا، لیکن انہوں نے شکایت درج نہیں کروائی۔ ہماری کوشش ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس معاملے کو حل کرنے پر مجبور کریں۔ لیکن ہمارے خدشات حل کرنے کے بجائے انتظامیہ ہم پر مظاہرے روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے۔
مظاہرے کی منتظمین میں سے ایک میمونہ خان کہتی ہیں کہ ان کا مقصد کیمپس کے طلبہ کے لیے محفوظ بنانا ہے۔ "ایک خاتون کی حیثیت سے مجھے آمنہ پر فخر ہے۔ اس نے بڑی جرات مندی اور بہادری سے یہ قدم اٹھایا ہے۔ نہ صرف اپنے خاندان کے ساتھ مل کر اس معاملے پر کھل کر بات کی ہے بلکہ اسے انجام تک پہنچانے کا بھی عزم رکھتی ہے۔ میں اب یونیورسٹی انتظامیہ سے توقع رکھتی ہوں کہ وہ محتسب کے فیصلے پر عملی اقدامات اٹھائے گی۔”
لیکن اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی انتظامیہ اب بھی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ طلبہ کے مظاہروں اور اتنے بڑے پیمانے پر بدنامی ہونے کے باوجود ٹیچنگ اسٹاف ایسوسی ایشن ملزم عامر اللہ کے ساتھ کھڑی ہے، اور کہتی ہے کہ ان پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے صدر دل نواز خان کہتے ہیں کہ "اگر استاد پر الزام لگے اور وہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کا مجرم ثابت ہو تو ہم اس کے ساتھ نہیں، لیکن اگر اس پر غلط الزام لگایا جائے تو سزا اسے بدنام کرنے والوں کو ملنی چاہیے۔”
صوبائی محتسب نے اپنے فیصلے میں یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ طلبہ کی شکایات کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور سوشل میڈیا پر آمنہ کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے، اسے روکنے میں ناکام ہے۔
ایک طرف جہاں آمنہ اور ان کے ساتھی اس تاریخی فیصلے پر خوش ہیں، وہیں انہیں مزید حمایت کے حصول اور کالج کی قدامت پسند انتظامیہ میں تبدیلی لانے کی ایک مشکل جنگ کا سامنا بھی ہے۔
خیبر پختونخوا سمیت پاکستان میں جنسی طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات عام ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین چوتھائی خواتین کو عوامی مقامات پر ہراسگی یا تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جواب دیں