بھارت میں کووِڈ بحران اور کم عمری کی شادی کا مسئلہ

‏16 سال کی راہی (فرضی نام) ایک کنویں کے کنارے پر کھڑی تھی، جس میں کود کر وہ اپنی جان لینا چاہتی تھی۔ کبھی اس کے دل میں مزید پڑھنے کے ارمان تھے، لیکن آج وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہتی تھی۔

راجستھان کے ضلع بارمیر میں راہی نے اپنے گاؤں کے بڑے بوڑھوں سے التجا کی تھی کہ اس کی رخصتی نہ کی جائے، لیکن ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔

وہ صرف 10 سال کی تھی جب اس کی نسبت طے کر دی گئی تھی اور اسکول سے اٹھا لیا گیا تھا۔ لیکن کووِڈ-19 لاک ڈاؤن کی وجہ سے سسرال کی جانب سے جلد از جلد رخصتی کی باتیں شروع ہو گئیں۔ انہوں نے سوچا شادی زیادہ خرچ کیے بغیر نمٹ سکتی ہے، اس لیے انہوں نے راہی کے گھر والوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ وہ تذبذب کا شکار تھی اور اپنے دل کی بات والد سے کہہ دی، جنہوں نے اپنی بیٹی کی بات مانتے ہوئے شادی کو منسوخ کر دیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کے سسرالی گاؤں میں کافی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔

شادی سے والد کے انکار پر انہوں نے گاؤں کے با اثر راجپوت خاندانوں کو اکٹھا کیا اور راہی کے گھر والوں پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ انہوں نے 12 دیہات کے بزرگوں کو اکٹھا کر کے پنچایت بلا لی، جہاں راہی نے کہا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہے، شادی نہیں۔ لیکن اس کی بات رد کر دی گئی اور اس کے خاندان کو خبردار کیا گیا کہ وہ شادی منسوخ کرنے سے باز رہے۔

اس کے بعد اونچی ذات کے خاندان کی جانب سے دباؤ بڑھتا چلا گیا۔ معاملہ راہی اور اس کے خاندان کو گاؤں سے نکالنے اور برادری سے خارج کرنے کی دھمکیوں تک آ گیا۔

خوش قسمتی سے جب راہی خود کشی کرنے والی تھی، ایک سماجی کارکن وہیں قریب سے گزر رہا تھا، اسے اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ اس نے راہی کو خود کشی سے روکنے کی کوشش کی اور پھر اس کے لیے قانونی جنگ لڑی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکے والوں کا خاندان پیچھے ہٹ گیا اور دباؤ ڈالنا بند کر دیا۔

یہ واقعہ اگست 2020ء کا ہے، وہی مہینہ جس میں وزارت برائے ترقی خواتین و اطفال کے مطابق اگست 2019ء کے مقابلے میں کم عمری کی شادیوں میں 88 فیصد کا اضافہ دیکھنے میں آیا۔

بچوں کی بہبود کے عالمی ادارے ‘یونیسیف’ کی ایک حالیہ رپورٹ کم عمری کی شادی پر کووِڈ-19 کے اثرات بیان کرتی ہے، جس کے مطابق بھارت ان پانچ ملکوں میں سے ایک ہے کہ جہاں دنیا بھر میں ہونے والی کم عمری کی آدھی شادیاں ہوتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے رکن کی حیثیت سے بھارت نے ‘پائیدار ترقیاتی اہداف’ پر عمل درآمد کا عہد کیا ہے، جس کے تحت 2030ء تک کم عمری یا بچپن کی شادیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔

بھارت میں کم عمری کی شادی 90 سال پہلے غیر قانونی قرار دی گئی تھی، لیکن قوانین کی موجودگی اور مختلف سرکاری پروگرام ہونے کے باوجود یہ عمل اب بھی بھارت میں جاری و ساری ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں۔ کئی ماہرین کے خیال میں کووِڈ-19 لاک ڈاؤن نے اس مسئلے کو مزید  گمبھیر بنا دیا ہے۔

اپریل 2020ء سے اگست 2020ء کے دوران صرف ریاست اڑیسہ میں ضلعی چائلڈ ویلفیئر افسران کے مطابق کم عمری کی شادی کی 180 سے زیادہ کوششیں ہوئی ہیں۔ مقامی کارکن کہتے ہیں کہ صرف مئی 2021ء میں انہوں نے ضلع نیا گڑھ میں رضاکاروں اور مقامی پولیس کی مدد سے کم از کم 10 ایسی شادیاں روکی ہیں۔

این جی او ‘ایجوکیٹ گرلز’ سے وابستہ شبنم عزیز کہتی ہیں کہ جب کوئی خاندان ذریعہ معاش کھو بیٹھتا ہے یا مالی مسائل بڑھنے لگتے ہیں تو سب سے پہلے لڑکیوں کی تعلیم و صحت اور ان کی ضروریات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ لڑکیوں کو سب سے آخر میں کھانے کو دیا جاتا ہے۔ اسکول میں دوپہر کا کھانا نہ ملنے اور گھر پر معاشی مسائل کی وجہ سے ان کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہو پاتیں، جس کے ان پر نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر کے کام کاج کا اضافی دباؤ ان کی جذباتی نشو و نما پر بھی براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ ایسے خاندانوں میں جب عمر کے ساتھ لڑکیوں کی گھریلو ذمہ داریاں بڑھتی ہیں تو انہیں اسکول سے بھی اٹھا لیا جاتا ہے، یوں ان کی تعلیم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

بھارت میں قانون کے مطابق لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر 18 سے 21 سال ہے، لیکن صرف قانون اس مسئلے کو ختم کرنے کے لیے کافی نہیں ہے بلکہ اس سے نئے مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ مثلاً جن ریاستوں میں شادی کی عمر 21 سال ہے، وہاں لڑکیوں کو 21 سال کی عمر تک گھر والوں کی بے انصافی اور استحصال کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اس لیے لڑکیوں کی تعلیم، کیریئر کے مواقع، شادی کے حوالے سے انتخاب کا اختیار دینے اور دیگر حقوق کے حوالے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سمت میں پہلا قدم اسکول کی سطح پر تعلیم میں صنفی حساسیت اور صنفی شعور اجاگر کرنے کے پروگرام شامل کر کے اٹھایا جا سکتا ہے۔

 

One Ping

  1. Pingback: ایران، کم عمری کی شادیوں میں اضافے کا رجحان - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے