”مجھے تشدد پسند نہیں ہے، جیسے عام طور پر لڑکیوں کو پسند نہیں ہوتا،” لیکن یہ کہتے ہوئے غزہ سے تعلق رکھنے والی ریما ابو رحمہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ وہ ایک لڑاکو کس طرح بنیں؟ "جب میں گھونسا مارتی ہوں تو اس کا احساس مجھے اچھا لگتا ہے۔”
22 سالہ ریما کہتی ہیں کہ "میں خود کو مضبوط محسوس کرتی ہوں، زیادہ بہادر اور زیادہ طاقتور۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے باکسنگ پسند ہے۔”
وہ حادثاتی طور پر باکسنگ سے متعارف ہوئیں، اب ریما اپنے ارد گرد کی دنیا کو بدلنے کے مشن پر ہیں؛ باکسنگ عرب خواتین کا نعرہ بن چکی ہے۔
غزہ کی جامعہ الازہر سے انگریزی اور فرانسیسی ادب میں ڈگری رکھنے والی ریما نے کوئی کام تلاش کرنے کے لیے کافی جدوجہد کی ہے، لیکن غزہ کے چھوٹے سے علاقے میں وہ اپنے اور آئندہ نسل کے لیے موجود امکانات کے حوالے سے زیادہ پُر امید نہیں ہیں ۔
غزہ 2007ء سے اسرائیل اور مصر دونوں کی ناکا بندی کا شکار ہے جس کی وجہ سے غزہ میں شہری نقل و حرکت اور بنیادی ساز و سامان کی درآمد پر بھی اسرائیل اور مصر کی گرفت ہے۔ اسرائیل غزہ کی فضائی حدود، بحری سرحدوں اور اس کے بیشتر سرحدی علاقوں کو کنٹرول کرتا ہے جبکہ مصر جنوب میں موجود رفاہ بارڈر کے ذریعے ہونے والی نقل و حرکت کو محدود کیے ہوئے ہے۔ یہ علاقہ صرف 140 مربع میل کا ہے، لیکن اتنی سی جگہ پر تقریباً 20 لاکھ شہری آباد ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات مسلح گروہوں کو اسلحہ دآمد کرنے یا اسرائیل پر حملہ آور ہونے سے روکنے کے لیے ضروری ہیں جبکہ فلسطینی ان اقدامات کو ظالمانہ اور جابرانہ قرار دیتے ہیں۔
ریما ابو رحمہ سے مندرجہ بالا گفتگو امریکی ادارے ‘سی این این’ سے گفتگو گزشتہ ماہ ہونے والی کار روائیوں سے پہلے ہوئی تھی کہ جن میں کم از کم 256 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کی راکٹ باری میں اس کے 12 شہری مارے گئے۔ اسرائیلی بمباری نے غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے اور کئی رہائشی عمارتوں کو ختم کر دیا ہے۔ اسرائیلی بمباری میں پورے پورے خاندان ختم ہو چکے ہیں۔
اب ریما کہتی ہیں کہ "ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ہمیں زندہ رہنا ہے۔ ایک مرتبہ پھر سب کچھ بنانا ہے اور یہاں تک کہ ایک دن آئے گا جب ہم آزاد ہوں گے۔”
ریما ایسے لوگوں کو جانتی ہیں کہ جنہوں نے اچھی زندگی کی تلاش میں غزہ سے فرار ہونے کی کوشش کی، ان میں ان کی ایک دوست بھی شامل تھیں جو سمندر میں ڈوب گئیں، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ مادرِ وطن سے امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ "ہم غزہ سے محبت کرتے ہیں اور یہاں رہنے والے اپنے دوستوں اور خاندان کے اراکین سے بھی۔ اور ہم حالات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ صورت حال بہت خراب ہے لیکن اگر ہم بھی بھاگ جائیں گے تو مسائل کون حل کرے گا؟
جب ریما صرف دو سال کی تھیں تو ایک تنازع میں ان کے خاندان کو رفاہ کے مہاجر کیمپ میں منتقل ہونا پڑا تھا۔ ان کی ابتدائی یادوں میں سے ایک گلیوں میں کھیلنا ہے۔ جب وہ چار سال کی ہوئیں تو ان کا خاندان غزہ واپس آیا۔ ان کی بہن فٹ بال کھیلتی تھیں جبکہ اسکول میں کھیل پر زیادہ زور نہیں دیا جاتا تھا البتہ کبھی کبھار وہ جم میں وزن اٹھاتی تھیں اور دوسری سرگرمیاں کرتی تھیں لیکن دل کو بھایا کچھ نہیں۔
لیکن گزشتہ سال انہوں نے فیس بک پر اسامہ ایوب کا وڈیو کلپ دیکھا کہ جس میں وہ لڑکیوں کو باکسنگ کی ٹریننگ دے رہے تھے، اس کے بعد سب کچھ بدل گیا۔
ریما نے ان سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ انہیں بھی باکسنگ سکھائیں گے؟ ان کے ساتھ مزید 10 لڑکیاں بھی شامل ہو گئیں اور آج دو مقامات پر تقریباً 45 باکسرز کی ٹیم ہیں، جن کی عمریں 7 سے 35 سال تک ہیں۔ یہ غزہ کی پہلی اور واحد خواتین کی باکسنگ ٹیم ہے۔
اسامہ ایوب کہتے ہیں کہ باکسنگ گویا میرے خون میں شامل ہے۔ مجھے بچپن ہی سے باکسنگ کا شوق تھا۔ میں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو بھی باکسنگ سکھائی ہے، بلکہ اپنی بیوی کو بھی۔” اسامہ نے پوری عرب دنیا میں باکسنگ کی ہے اور 2013ء میں جب وہ غزہ واپس آئے تو انہوں نے فلسطینی خواتین کو تربیت دینا شروع کر دی۔ ابتدا میں انہوں نے یہ کام ساحلِ سمندر پر شروع کیا تاکہ اس حوالے سے روایتی نقطہ نظر تبدیل ہو۔ "سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ معاشرے میں ان لڑکیوں کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ کہیں گے کہ ان لڑکیوں کو دیکھو، یہ گھروں پر اپنی ماؤں کا ہاتھ بٹانے کے بجائے کیا کر رہی ہیں۔ ہم نے معاشرے کا نقطہ نظر بدلا ہے۔” اسامہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس جگہ ہوتی تو ہم 100 لڑکیوں کی تربیت کرتے۔
گو کہ غزہ میں خواتین میں مقبول ترین نیا کھیل باکسنگ ہی ہے لیکن اس حوالے سے درپیش مسائل سے بھی وہ بخوبی واقف ہیں۔ ریما بتاتی ہیں کہ "بہت سے لوگوں نے کوچ کو بلایا اور انہیں دھمکایا کہ یہ کام بند کر دیں ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا۔ پہلے تو لڑکیاں خوف زدہ ہوئیں، کوچ بھی پریشان تھے۔ انہوں نے ہمیں کہا کہ سوشل میڈیا پر کوئی چیز پوسٹ نہ کریں۔” ریما نے ان تمام باتوں کی فہرست بنائی جو لوگ ان خواتین کے بارے میں کہتے تھے کہ "یہ لڑکیاں پر تشدد ذہنیت کی حامل ہو رہی ہیں؛ یہ مردوں جیسی لگ رہی ہیں۔” انہوں نے بتایا کہ چند لوگوں نے تو ان باکسر خواتین کے نام تک ظاہر کر کے پھیلانے شروع کر دیے کہ کوئی مستقبل میں "غلطی سے بھی” ان سے شادی نہ کرے۔ "یہ پڑھ کر تو ہنسی ہی آ رہی تھیں۔ ہم ایسی ذہنیت رکھنے ولے لڑکوں سے شادی کریں گے؟ آخر یہ خود کو سمجھتے کیا ہیں؟”
ریما نے کہا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو لڑکیوں کو رات کے وقت باہر دیکھنے کا عادی نہیں ہے۔ ایک رات 8 سے 9 بجے کے درمیان ایک شخص میرا تعاقب کر رہا تھا اور میں کافی ڈر گئی تھی۔ میں خود کو اتنا مضبوط نہیں سمجھتی تھی اور اپنا دفاع نہیں کر سکتی تھی، اس لیے میں نے ابو کو بلایا۔ جب اس نے انہیں آتے دیکھا تو بھاگ کھڑا ہوا؛ بزدل کہیں کا۔”
اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں وہ چار مرتبہ بڑے تنازعات دیکھ چکی ہیں، 2008ء، 2012ء، 2014ء اور اب 2021ء میں۔ کہتی ہیں کہ میں نے ٹینک دیکھے ہیں، آسمان پر میزائل، عمارتوں کو بمباری سے تباہ ہوتے اور لاشوں کے چیتھڑے اڑتے دیکھا ہے۔ جب وہ 10 سال کی تھی تو اسرائیلی فوج غزہ میں گھس آئی تھی۔ ایک رات ان کے خاندان کو صرف رات کے لباس ہی میں گھر سے نکلنا پڑا اور جب ہفتوں بعد وہ اپنے گھر واپس آئے تو انہیں اندازہ ہوا کہ وہ کتنے خوش قسمت تھے۔ "ہمارا گھر گولیوں سے چھنی تھا۔ جہاں میرا بستر تھا وہ جگہ بری طرح تباہ ہو گئی تھی۔ میں رونے لگی کہ اگر میں گھر پر ہوتی تو شاید زندہ نہ ہوتی۔”
2008ء کے اس اسرائیلی آپریشن میں 1,400 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوئے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ کم عمری میں ہی ریما سمجھ گئیں کہ انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سیکھنا پڑے گا۔ "یہ خیال کہ ابو ہر جگہ ہمیں تحفظ دے سکتے ہیں، ذہن سے محو ہونے لگا اور صرف 10 سال کے ہونے کے باوجود ہمیں پورا اندازہ ہو چکا تھا کہ حالات کہیں زیادہ گمبھیر ہیں، اتنے کہ ابو بھی ہمیں نہیں بچا سکتے۔”
"میرے ذہن میں تب سے یہ احساس تھا کہ مجھے اپنا تحفظ کرنا سیکھنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے میں نے یہ اس لڑکے کی وجہ سے سوچا ہو جو سڑک پر میرا تعاقب کر رہا تھا یا پھر معاشرے کی وجہ سے یا ایک عورت ہونے کی وجہ سے جس ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا اس کی بدولت۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنگ اس کا ایک حصہ ہو۔”
اسامہ ایوب نے ‘سی این این’ کو دکھایا کہ انہوں نے جم کے لیے سامان کس طرح تیار کیا ہے۔ "میرے گھر میں کچھ گدے تھے۔ میں نے انہیں کاٹا اور یہ پنچ بیگ بنائے۔ لیکن میں آٹھ مربع میٹر کی جگہ پر 40 سے 50 لڑکیوں کی تربیت نہیں کر سکتا۔ مجھے مالی مدد کی ضرورت ہے تاکہ انہیں بین الاقوامی سطح تک پہنچاؤں۔”
ریما کہتی ہیں کہ ٹیم میں شامل چند لڑکیوں نےپروفیشنل باکسر بننے اور بین الاقوامی سطح پر مقابلوں میں حصہ لینے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن ایسی کسی بھی امید کا تمام تر انحصار امداد اور اسپانسر پر ہے کہ کوئی ان کے پاسپورٹ اور سفر کے اخراجات اٹھائے اور ساتھ ہی مناسب ساز و سامان اور وردی کا بھی۔ "ذاتی طور پر میرا خواب نہیں ہے کہ میں کسی چیمپئن شپ میں حصہ لوں یا باکسنگ کو پروفیشنل کی حیثیت سے کھیلوں، لیکن میرا باکسنگ کوچ بننے کا خواب ضرور ہے کیونکہ بہت سی لڑکیاں اس لیے ہماری ٹیم کا حصہ نہیں بنتیں کیونکہ ہمارا کوچ ایک مرد ہے۔ میں ان کے اس فیصلے کا احترام کرتی ہوں، لیکن یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میں لڑکیوں کو مضبوط اور اس طرح کے کھیل میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں اچھی باکسر بننے کی کوشش کر رہی ہوں، دوسری خواتین کو مدد دینے کے لیے۔ میرا ماننا ہے کہ انہیں با اختیار بنانے اور مضبوط تر بننے کا موقع ملنا چاہیے۔ میں اس بات پر یقین رکھتی ہوں اور خواتین پر بھی۔”
جواب دیں