بھارت میں ویکسین لگوانے کے عمل میں بھی صنفی تفریق

بھارت میں کرونا وائرس ویکسین لگانے کے پروگرام میں بھی واضح صنفی تفریق نظر آتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے تین ریاستوں کے ہر جگہ ویکسین لگوانے والوں میں مردوں کی تعداد عورتوں سے کہیں زیادہ ہے۔

بھارت نے کرونا ویکسین لگانے کا عمل 16 جنوری کو صحت کے شعبے سے وابستہ افراد کے ساتھ کیا تھا۔ بعد ازاں یکم مارچ سے اسے 60 سے زیادہ عمر رکھنے والے تک پھیلایا گیا، یہاں تک کہ یکم مئی سے یہ 18 سے 44 سال کی عمر کے افراد کو بھی لگائی جا رہی ہے۔

بھارت گزشتہ ماہ یعنی مئی کے اختتام تک اپنے 16.5 کروڑ باشندوں کو ویکسین کا کم از کم ایک ڈوز لگا چکا ہے، جو اس کی کُل بالغ آبادی کا تقریباً 19 فیصد بنتا ہے۔

ویکسین لگانے کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد ابتدائی دنوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی، جس کی وجہ صحت کے شعبے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہونا ہے، لیکن 31 جنوری سے یہ شرح مسلسل گھٹتی جا رہی ہے۔ مئی کے اختتام ہر ویکسین لگوانے والے ہر 1,000 مردوں کے مقابلے میں خواتین 871 ہیں۔ اس کے بالکل برعکس امریکا میں ویکسین لگوانے والوں میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، باوجود اس کے کہ امریکا میں خواتین کی آبادی مردوں سے کم ہے۔

بھارت میں بالغ آبادی میں مردوں کی شرح عورتوں سے زیادہ ہے۔ ملک میں صرف تین ریاستیں ایسی ہیں کہ جہاں بالغ آبادی میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے، ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ اور کیرلا میں۔ اس عنصر کو بھی سامنے رکھیں تب بھی ویکسین لگوانے والے مردوں اور عورتوں میں فرق کہیں زیادہ ہے۔ سب سے زیادہ جموں و کشمیر، دلّی اور اڑیسا میں نظر آ رہا ہے جبکہ اتر پردیش، مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں خواتین کے مقابلے میں ویکسین لگوانے والے مردوں کی تعداد 10 لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ صنفی تفریق شمال مشرقی ریاستوں اور وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں بھی نظر آتی ہے۔

اس تفریق کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے البتہ چند سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خواتین سے رابطوں میں دشواری اور ان میں ویکسین ہچکچاہٹ زیادہ ہونا اس کی وجہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے ویکسین لگوانے کے حوالے سے خواتین میں مردوں سے زیادہ ہچکچاہٹ دیکھی ہے۔ تامل ناڈو، پنجاب اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں کہ جہاں ویکسین ہچکچاہٹ ویسے ہی زیادہ ہے، خواتین میں یہ شرح زیادہ نظر آتی ہے۔

ایک اور وجہ اس پورے عمل کا ٹیکنالوجی پر مبنی ہونا ہے۔ پیپلز ہیلتھ موومنٹ کے ماہر اور گلوبل کوآرڈی نیٹر ٹی سندررامن کہتے ہیں کہ جب آپ پورے سسٹم کو ایک ویب سائٹ پر منحصر کر دیتے ہیں تو جو مراعات یافتہ طبقہ ہے اسے خود بخود برتری حاصل ہوگی، یعنی بالائی طبقہ، شہری اور نوجوان مرد۔

مثلاً بہار ہی کو دیکھ لیں کہ ‏2019-20ء کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق وہاں صرف 51 فیصد خواتین کے پاس فون ہے کہ جسے وہ خود استعمال کر سکتی ہیں اور ان میں سے بھی 49 فیصد ایسی ہیں جو ایس ایم ایس پڑھ سکتی ہیں۔ ریاست میں صرف ایک تہائی گھرانے ہی ایسے ہیں کہ جن کی انٹرنیٹ تک رسائی ہے۔ سندررامن کہتے ہیں کہ مسئلہ محض انٹرنیٹ تک رسائی کا بھی نہیں ہے بلکہ ویکسین لگانے کے عمل میں ابتدا ہی سے خواتین کے حوالے سے تعصب برتا گیا ہے۔

بھارتی حکومت اس وقت حاملہ خواتین کو ویکسین لگانے کی اجازت نہیں دیتی، الّا یہ کہ کوئی سنگین صورت حال ہو۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی دودھ پلانے والی ماؤں کو اس کی اجازت دی گئی ہے۔

یہ صنفی تفریق کے اس مسئلے کا محض ایک حصہ ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟ اس کا کسی کو علم نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے