زندگی کا بوجھ کم کرنے کےلیے بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، اور ایک ایسے معاشرے میں جہاں فیصلہ کرنے کا حق بھی مردوں کے لیے مخصوص سمجھا جائے، لاہور کی رامیشہ عادل خان نے وہ فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں ان کوایک طرف گیارہ سالہ ذہنی بوجھ سے چھٹکارا ملا اور دوسری طرف لاہور ڈویژن سے ویٹ لفٹنگ میں سونے کا تمغہ۔ پدرشاہی نظام میں طلاق یافتہ عورت کےلیے زندگی یقینی طور پر کئی گنا مشکل ہوجاتی ہے، لیکن رامیشہ عادل خان کے لئے نہیں۔ اس نے ضلعی سطح پر 100 کلوگرام اسکواٹس اور 115 کلوگرام ڈیڈ لفٹیں کیں اور سونے کا تمغہ جیتا۔ اس کا اگلا ٹارگٹ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کرنا ہے۔ لیکن کامیابی کا یہ سفر اتنا آسان نہ تھا۔
رامیشہ کی کہانی ہر دوسری دیسی لڑکی کی طرح شروع ہوتی ہے۔ میٹرک تک تعلیم ، 18 سال کی عمر اور شادی طے۔ شادی اس کے والدین کی پسند سے ہورہی تھی جس میں اس کی رضامندی بھی شامل تھی۔ اس وقت کو یادکرتے ہوئے رامیشہ کہتی ہیں؛
"مجھے عملی زندگی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی۔ میں نے سیکنڈ ایئر کی صرف ایک ہفتے کی کلاسز لی تھیں اور میری شادی ہوگئی۔ میں کم از کم اپنا انٹرمیڈیٹ مکمل کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرے سسرال والوں نے مجھے اس کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ تب بھی میں جانتی تھی ، مجھے اپنی زندگی کے ساتھ کچھ کرنا ہے “۔
رامیشہ کو جلد ہی احساس ہوگیا کہ وہ ایسی لڑکی نہیں جو اپنی زندگی کو پیچھے چھوڑدے اور خود کو شادی ، باورچی خانے اور بچوں تک محدود رکھ سکے۔ اس کی شادی 11 سال تک جاری رہی لیکن بدقسمتی سے ، اس کی کوئی اولاد پیدا نہ ہوسکی۔ محلے کی آنٹیوں کی طرف سے بتائی گئی توہم پرستانہ رسومات پر عمل کرنے کی بجائے رامیشہ نے اپنی زندگی کو خودسنبھالنے اور شادی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
"میری شادی بہت اچھے نوٹ پر ختم ہوئی۔ میں اور میرے سابقہ شوہر پرسکون انداز سے اٹارنی آفس گئے، ہمیں ہماری طلاق کے سرٹیفکیٹ مل گئے ،جو ہم نے ایک دوسرے کو لہرا کر دکھائے، اور چہروں پر مسکراہٹ کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ "
رامیشہ کا ماننا ہے کہ لڑکی کی زندگی میں سب سے اہم چیز تعاون ہے ، خاص طور پر اگر وہ طلاق کےمرحلے سے گزر رہی ہو ۔ اگر کسی لڑکی کو اس کے والدین کی حمایت حاصل ہے تو وہ دنیا میں کچھ بھی حاصل کرسکتی ہے لیکن اگر اسے اپنے والدین کی حمایت نہیں تو وہ اپنی زندگی میں کچھ نہیں کرسکے گی۔ رامیشہ نے طلاق لینے سے پہلے اپنے والدین کی اجازت طلب کی اور انہوں نے اس کی مکمل حمایت کی۔
رامیشہ کے لئے اس کے والدین کی حمایت کافی ثابت ہوئی اور اس نے ازدواجی بندھنوں سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ رامیشہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنے دوستوں اور کوچز کو بھی دیتی ہے کہ جب بھی وہ مایوسی کی وجہ سے چھوڑنا چاہتی یا سستی کی وجہ سے کم وزن اٹھانے کی کوشش کرتی، اس کا کوچ اس کی حوصلہ افزائی کرتا اور اسے ٹریک پر واپس لے جاتا۔
زیادہ تر لڑکیوں کے برعکس، رامیشہ کو بچپن سے ہی وزن اٹھانے کا جنون تھا۔
"جب بھی ہمارے گھر میں مہمانوں کی آمد متوقع ہوتی، تو میں عام طور پرباورچی خانے میں گھر کے کاموں کی بجائے کمرے کی ترتیب تبدیل کرنے جیسے لفٹنگ کے کام کو ترجیح دیتی، یہی وجہ ہے کہ میں اس فیلڈ میں آگئی”۔
رامیشہ کواس فیلڈ میں اب 10 سال ہوچکے ہیں۔ اس نے محض ایک جم ممبر کی حیثیت سے شروعات کیں۔ اس کی لیڈی کوچ نے اس کا جنون دیکھ کر اسے فٹنس ٹرینر بننے کی ترغیب دی۔ رامیشہ نے عملی ٹیسٹ پاس کرکے ، جلد ہی سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا اور اسی جم کو بطور فٹنس کوچ جوائن کرلیا۔ یہ اس کی پہلی بڑی کامیابی تھی اور یہی اس کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی۔رامیشہ سے پوچھا گیا کہ وہ دوسری خواتین سے کیا کہیں گی جو کسی مسیحا کی منتظر ہیں تو رامیشہ کا ایک واضح پیغام تھا:
"میرے پاس ہر عمر کی خواتین کے لئے ایک آسان پیغام ہے ، ہماری زندگی بہت مختصر ہے۔ایک بار جب ہم اسے حاصل کرلیں، ہمیں اپنی مرضی کے مطابق ، اسے اپنی شرائط پر گزارنا چاہئے۔ لوگوں کے کہنے کے خوف سے اپنے آپ کو محدود نہ کریں، کیونکہ لوگوں کا کام ہی باتیں کرنا ہے چاہے آپ کچھ بھی کرلیں”۔
رامیشہ کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے ، جہاں طلاق ممنوع سمجھی جاتی ہے۔ لیکن والدین کی سپورٹ سے اس کو کسی خاص مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ رامیشہ کی 2 بہنیں ہیں اور وہ بھی اپنی اپنی زندگی میں بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ اس کی والدہ ، جن کی عمر پچاس سال سے زائد ہے، اس وقت ایم اے کررہی ہیں۔ انہوں نے تقریباً 35سال کے وقفے کے بعد اپنی تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رامیشہ اپنی والدہ کو اپنی طاقت سمجھتی ہیں۔
"میری والدہ خود ایک متاثر کن شخصیت ہیں۔ جب بھی میں کسی بھی چیز سے پریشان ہوں ، میں سیدھاان کے پاس جاتی ہوں۔ وہ بھی کافی مشکل حالات سے گزر ی ہیں ، لیکن انہوں نے حالات کے سامنے سر نہیں جھکایا اور اپنے کام کو جاری رکھنے میں کامیاب رہیں”۔
شادی کے 11 سال بعد بچوں کے بغیر طلاق لے کر اپنی مرضی کا ایسا کیریئرشروع کرنا جو خواتین کے لیے نامناسب سمجھا جاتا ہو اورپھر ویٹ لفٹنگ میں سونے کا تمغہ حاصل کرنا۔رامیشہ عادل خواتین کو بااختیار بنانے کی ایک حقیقی تصویر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی اسے کہے کہ اسے اپنی زندگی میں مرد کی ضرورت ہے تو وہ انھیں بتاتی ہے کہ اس نے پہلے ہی شادی کرکے اس کی کوشش کی لیکن وہ اس قابل نہیں تھا۔ صنفی امتیازسے بھرے ہمارے معاشرے کو یقینی طور پر رامیشہ جیسی خواتین کی ضرورت ہے جنہوں نے نہ صرف اپنے خاندان،بلکہ پوری قوم کاسر فخر سے بلند کیا ہے۔
Pingback: پاکستان کی 'ڈار سسٹرز'، ویٹ لفٹر بہنوں کی نظریں نئی بلندیوں پر - دی بلائنڈ سائڈ