وہ صرف سپاہی نہیں تھا

وہ ایک سپاہی تھا، لیکن وہ صرف سپاہی نہیں تھا، وہ ایک ایتھلیٹ بھی تھا ۔ 1954 کی ایشین گیمز کے 100 میٹر ایونٹ میں اس نے نہ صرف اپنے ساتھ دوڑنے والے سبھی ایتھلیٹس کو پیچھے چھوڑا بلکہ ایشیا کا تیز ترین ایتھلیٹ کا اعزاز بھی اپنے نام کیا۔ ہم بات کررہے ہیں عبدالخالق کی جنہیں بھارتی وزیراعظم نے "فلائنگ برڈ آف ایشیا” قرار دیا تھا۔
چند سال قبل ہندوستان نے اپنے ایتھلیٹ ملکھا سنگھ کی زندگی اور کامیابیوں پر ایک فلم "بھاگ ملکھا بھاگ” بنائی۔اسی فلم میں ملکھا سنگھ کو عبدالخالق جیسے سخت پاکستانی حریف کاسامنا کرتے ہوئے بھی دکھایا گیا ۔ فلم کی ہائی لائٹ میں 1958 ایشین گیمز کی 200 میٹر ریس بھی ہے جس میں ملکھا سنگھ نے چند ملی سیکنڈز سے عبدالخالق پر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن وہ یہ دکھانا اوربتانا بھول گئے کہ اسی ایشین گیمز کی 100 میٹر ریس میں عبدالخالق نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ پاکستان کے ایتھلیٹ کی بہت ساری کامیابیوں کواپنی فلم میں دکھانا نہیں چاہتے تھے ، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم بھی اپنے ہیرو کو بھول گئے ہیں؟


افسوس کی بات یہ ہے کہ اس فلم سے پہلے بہت سارے پاکستانی عبدالخالق کو نہیں جانتے تھے۔اور خوش آئند بات یہ کہ اب ہم اپنے ہیرو عبدالخالق کی ان گنت کامیابیوں کو جانتے ہیں ۔جن کا آغاز 1954 کی ایشین گیمز کے 100 میٹر ایونٹ سے ہوتا ہے جس میں عبدالخالق نے پاکستان کے لئے گولڈ میڈل جیتا اور 10.6 سیکنڈ میں فاصلہ طے کرکےکم ترین وقت کا گزشتہ ریکارڈ توڑ دیا۔ چار سال بعد ، ٹوکیو ایشین گیمز میں ، خالق نے ایک بار پھر 100 میٹر ریس میں طلائی تمغہ جیتا ۔
بھارتی فلم کے مرکزی ایونٹس میں سے ایک ملکھا سنگھ اور عبدالخالق کے درمیان وہ مقابلہ بھی تھا جس کاانعقاد پاکستان میں صدر ایوب خان کی دعوت پر کیاگیا۔ اس ایونٹ کی تفصیل میں جائیں تو ملکھا سنگھ اور عبدالخالق کے مابین مسابقت کو دیکھنے کے بعد پاکستان کے صدر ایوب خان نے ہندوستانی ایتھلیٹوں کو پاکستانیوں کے ساتھ مقابلے کی دعوت دی۔ سب کی نگاہیں ملکھا سنگھ اور عبدالخالق کے مابین دوڑ پر تھیں۔ پاکستانی کھلاڑی سپرنٹر تھا اور اس کا پسندیدہ ایونٹ 100 میٹر تھا، لیکن ملکھا سنگھ 400 میٹر ریس کا بہتر ایتھلیٹ تھا، اس لیے ہندوستانی ایتھلیٹ نے عبدالخالق کے 100میٹر ایونٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ، لیکن ہمارے ہیرو عبدالخالق نے 400 میٹر کی دوڑ میں حصہ لینے کا چیلنج قبول کیا۔
عبدالخالق کو ریس میں ابتدائی طور پر برتری حاصل تھی ، کیونکہ وہ ایک بہتر سپرنٹر تھا، لیکن ملکھا سنگھ کا اسٹیمنا بہتر تھا، جس کی بدولت ریس کے آخری حصے میں وہ آگے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔ فلم میں دکھایا گیا کہ ایوب خان نے ملکھا کو "فلائنگ سکھ” کا خطاب دیا تھا۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اس وقت عبدالخالق کو "فلائنگ برڈ آف ایشیا” کا خطاب دیا تھا جب وہ دو مرتبہ ایشیا کے تیز ترین آدمی بنے اور اس عمل میں انہوں نے ایک ہندوستانی کا ریکارڈبھی توڑ اتھا۔


ایک مرتبہ400 میٹر کی ریلے ریس میں عبدالخالق نے ملکھا کو براہِ راست چیلنج کیا ۔ ریلے ریس میں پاکستان کو واضح برتری حاصل تھی،لیکن عبدالخالق نے بھاگنا چھوڑدیا اور رک کر حریف کا انتظار کیا اور جب وہ قریب آیا تو خالق نے آواز لگائی، "اب بھاگ ملکھا” اور پھر اس کے ساتھ دوڑنا شروع کیا اور بالآخر ملکھا کو شکست دی۔
بدقسمتی سے ، عبدالخالق کو وہ پہچان نہیں ملی جس کے وہ حقدار ہیں۔ ہندوستا ن نے اپنے ایتھلیٹ کو ایک بڑے چیمپئن کی طرح پیش کیا لیکن عبدالخالق کی وسیع کامیابیوں کے بارے میں کوئی بات کرنے والا نہیں ہے ، جنہوں نے36 طلائی تمغے ، چاندی کے15 تمغے اور کانسی کے 12 تمغوں کےساتھ کُل 63 بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کیے۔جبکہ خالق کے قومی سطح پر جیتے گئے تمغوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔
عبدالخالق کی بھولی بسری یادوں میں سے اتنا ضرور ہے کہ لاہور کے آرمی میوزیم میں ان کی تصویرموجود ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کی زندگی اور کارناموں سے متعلق سرکاری سطح پر کوئی ڈاکیومنٹری بنائی جاتی۔اور اگر ایسا ممکن نہیں تھا تو پھر عدندن سرور جیسے سرپھرے فلم ساز کو یہ ذمہ داری دی جاتی کہ وہ باکسرحسین شاہ پر بنائی گئی فلم "شاہ” کی طرح ، عبدالخالق پر بھی ایک فلم بنادیں۔

نوٹ:
آپ بھی اپنی رائے دیں کہ ایسی کون سی پاکستانی شخصیات ہیں جن پر فلم یا ڈرامہ بنا کر انہیں ٹریبیوٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔

One Ping

  1. Pingback: عالمی مقابلوں میں پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے