فلسطین کے لیے ٹیلی میڈیسن منصوبہ، سینکڑوں پاکستانی خواتین ڈاکٹر پیش پیش

ایک ایسے وقت میں جب قوم فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے خلاف بھرپور غم و غصے کا اظہار کر رہی ہے اور اظہارِ یکجہتی کے لیے میدان میں موجود ہیں، ایک درجن سے زیادہ ممالک میں مقیم 100 سے زیادہ پاکستانی خواتین ڈاکٹر غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو بذریعہ ٹیکنالوجی طبّی مدد فراہم کر رہی ہیں۔

خواتین ڈاکٹر ملک میں سرکاری شعبے کی قدیم ترین میڈیکل یونیورسٹیز میں سے ایک ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کا ایک ٹیکنالوجی منصوبہ لے کر آئیں، جو اب تک سینکڑوں پاکستانی لیڈی ڈاکٹروں کو ایک مرتبہ پھر شعبے میں واپس لایا ہے جنہوں نے اپنے خاندانی اور سماجی مسائل کی وجہ سے ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ دیا تھا لیکن گزشتہ دو سالوں کے دوران شعبے میں واپس آئی ہیں۔

دو سال قبل ‘ای ڈاکٹر’ نامی یہ منصوبہ ان 35 ہزار خواتین ڈاکٹروں کے لیے شروع کیا گیا تھا جنہوں نے اپنی میڈیکل کی تعلیم تو مکمل کر لی لیکن اب اس پیشے سے وابستہ نہیں۔ انہیں ایک مرتبہ پھر طبّی عملے کا حصہ بنانے کے لیے بنایا گیا یہ منصوبہ کامیابی کے کئی خواتین کو ایک مرتبہ پھر طب کے شعبے میں واپس لایا۔ اس وقت ‘ای ڈاکٹر’ منصوبے کے تحت سینکڑوں خواتین ڈاکٹر پاکستان اور بیرونِ ملک میں اپنے گھروں سے خدمات پیش کر رہی ہیں۔

صوبائی انتظامیہ نے کووِڈ-19 کے ایسے ہزاروں مریضوں کی نگرانی کے لیے ان ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کیں کہ جو کسی معالج تک رسائی نہیں رکھتے اور انہیں صحت کی بحالی کے لیے مسلسل مشاورت کی ضرورت تھی۔

اسی منصوبے کے تحت اب فلسطین کے لیے ‘ٹیلی ہیلتھ سروسز’ پیش کی گئی ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچوں کو خدمات دی جا رہی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد انہوں نے انسانی اور امدادی انجمنوں سے رابطہ کیا اور ایک ایسی ٹیلی میڈیسن پلیٹ فارم تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئے کہ جو فلسطین کے تمام بڑے شہروں کا احاطہ کرتا ہے۔

‏’ای ڈاکٹر’ پروجیکٹ کے ٹیکنالوجی پارٹنر ‘ایجو دوست’ کے بانی عبد اللہ بٹ بتاتے ہیں کہ ہم غزہ، رام اللہ اور مغربی کنارے میں خدمات پیش کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکا، برطانیہ، آئرلینڈ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں مقیم ڈاکٹروں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ ہم یہ کام اس مشکل وقت میں فلسطینیوں کی مدد کے لیے مکمل طور پر انسانی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس سسٹم کے میدانِ عمل میں آتے ہی ایک بڑا چیلنج ابھرا جب پاکستان میں موجود ڈاکٹروں اور فلسطین میں موجود مریضوں اور امدادی کارکنوں میں زبان کا مسئلہ پیدا ہوا۔ خدمات فراہم کرنے والے بیشتر ڈاکٹر عربی نہیں جانتے جبکہ فلسطین میں موجود مریضوں اور امدادی کارکنوں کی اکثریت کو دوسری کوئی زبان سمجھ نہیں آتی۔ اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہم نے دیگر ممالک میں روابط تلاش کیے اور بالآخر ہم نے اس مسئلے کا حل نکال دیا۔ ہم نے اردن، سعودی عرب اور سودان کی عربی بولنے والی خواتین ڈاکٹروں کو شامل کیا اور انہیں اس سسٹم سے جوڑ دیا۔ اب وہ پاکستانی ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر فلسطین کے عوام کو خدمات پیش کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب سے عام مسئلہ ذہنی دباؤ ہے اور زیادہ تر افراد بالخصوص بچوں اور خواتین کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے۔

اس منصوبے کی ایک رکن ڈاکٹر سعدیہ خالد کا کہنا ہے کہ ‘ای ڈاکٹر’ نے مختلف مہارتیں رکھنے والے عملے کو اکٹھا کیا اور انہیں فلسطین منصوبے کا حصہ بننے پر فخر ہے۔ ان مشکل ترین حالات میں یہ منصوبہ فلسطین کے بہادر عوام کے لیے امید کی کرن ثابت ہوگا۔ مجھے اس میں اپنا حصہ ڈالنے اور انتہائی ضرورت مند افراد کی مدد کرنے کا موقع ملنے پر خوشی ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے