فٹ بال کس طرح ہزارہ خواتین کی زندگیاں بدل رہا ہے

‏19 سالہ صغریٰ رجب اور 21 سالہ شمسیہ علی دو ابھرتی ہوئی نوجوان فٹ بالرز ہیں، جنہوں نے رواں سال مارچ میں کراچی میں ہونے والی نیشنل فٹ بال چمپیئن شپ میں ہزارہ کوئٹہ ٹیم کی نمائندگی کی۔

اس ٹورنامنٹ کے لیے وہ کوئٹہ سے سفر کر کے ساحلی شہر کراچی پہنچی تھیں اور یہ سفر شمسیہ کے لیے گویا خوابوں کی تعبیر ثابت ہوا ہے۔ صغریٰ نے اسے زندگی میں ملنے والا نایاب موقع قرار دیا اور کہا کہ یہاں جو مواقع ملے ہیں وہ بہت حیران کن ہیں۔ اپنی پسند کا کھیل بغیر کسی خوف کے کھیلنا خوش آئند تھا، نہ صرف ان کے لیے بلکہ پوری ٹیم کے لیے بھی۔

دونوں کھلاڑیوں کا تعلق کوئٹہ کی ہزارہ برادری سے ہے جو عرصے سے فرقہ وارانہ حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس پاکستان کی 2018ء کی رپورٹ کے مطابق 2005ء سے اب تک ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تقریباً 2 ہزار افراد مختلف فرقہ وارانہ حملوں میں اپنی جانیں دے چکے ہیں۔

فرقہ واریت، تشدد اور خوف کے باوجود فٹ بال اس برادری کے لیے امید کی کرن ہے، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے۔

سر پر سیاہ اسکارف اور شارٹس کے نیچے سیاہ رنگ کے پاجامے پہنے ان لڑکیوں کے لیے کراچی کی چلچلاتی دھوپ میں کھیلنا تو مشکل تھا لیکن کوئٹہ کے ہزارہ ٹاؤن کے اپنے مسائل اور پریشانیاں ہیں۔

صغریٰ کہتی ہیں کہ ہم واپس آنے کے بعد اب اپنے روزمرہ معمولات پر لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں، دوستوں سے اور خاندان سے ملنا جلنا اور کھیلنا۔ لیکن امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ دو سال پہلے صغریٰ کے ایک قریبی عزیز بھی ایک حملے میں جاں بحق ہوئے تھے اور اس واقعے نے انہیں ذہنی طور پر بہت متاثر کیا۔

شمسیہ کے لیے بھی اپنے خاندان کو قائل کرنا بہت مشکل تھا۔ میرے والد کا کہنا تھا کہ ہماری برادری کو مرد تک محفوظ نہیں تو خواتین کے تحفظ کی توقع کس طرح رکھی جا سکتی ہے۔

لیکن یہ ان دونوں کی کوچ صبا تھیں جنہوں نے کئی مہینوں کی محنت کے ذریعے والدین کو قائل کیا۔ سابق فٹ بالر اور ماضی میں بلوچستان کی نمائندگی کرنے والی صبا کا کہنا ہے کہ ہماری برادری مستقل ظلم اور قتل و غارت کا ہدف ہے۔ میرا منصوبہ تھا کہ ٹورنامنٹ سے ایک سال پہلے سے لڑکیوں کے خاندانوں کو قائل کرنا شروع کر دوں گی۔ ٹارگٹ کلنگ نے ہزارہ برادری کو کئی ایسے مواقع سے محروم کیا ہے، جو انہیں ایک پُر امن ماحول کی صورت میں ملتے۔

رواں سال جنوری میں بلوچستان کے علاقے مچھ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 11 کان کن اغوا کے بعد قتل کر دیے گئے تھے۔ اس حملے سے صبا کی ایک سال سے والدین کو قائل کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو سخت دھچکا پہنچا۔

صبا نے بتایا کہ والدین کو ایک مرتبہ قائل کرنا مشکل تھا۔ اس حملے کے بعد کئی والدین نے اپنے فیصلے واپس لے لیے۔ لڑکیاں انہیں کال کر کے روتی تھیں۔

صبا نے 2017ء میں ہزارہ ٹاؤن میں ایک دست کاری و سلائی مرکز کھولا تھا۔ ان کی ورکشاپ میں ان کے فٹ بال کےزمانے کی تصویریں دیکھ کر کئی لڑکیوں میں تجسس پیدا ہوا۔ شروع میں تو صبا نے انہیں ہلکی پھلکی تربیت دی لیکن معاملات سنجیدہ ہوتے چلے گئے۔ ایک سال بعد ان کے حوصلے کہیں بڑھ گئی۔ اب ایک باقاعدہ ٹیم بن چکی تھی، جس نے فٹ بال کھیلنے کا آغاز کیا اور پروفیشنل سطح پر کمیونٹی کی نمائندگی شروع کر دی۔ تب صبا نے ہزارہ فٹ بال اکیڈمی سے ان کے میدان پر کھیلنے کی اجازت طلب کی۔ شروع میں تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور فٹ بال میں کھیل کی خواتین کی شرکت پر سوالات اٹھائے گئے لیکن اصرار کرنے پر بالآخر منظوری مل گئی۔ اکیڈمی نے اپنا گراؤنڈ استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ صبا نے بتایا کہ ہم نے انہیں 15 ہزار روپے ماہانہ ادا کیے اور ہفتے میں تین دن تربیت کے لیے لے لیے۔

انسانی حقوق کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ خواتین کو خاص طور پر دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔ ایک تو انہیں عورت ہونے کی وجہ سے ویسے ہی عام معاشرتی استحصال کا سامنا ہے، پھر ہزارہ برادری سے تعلق کی وجہ سے مزید پریشانیاں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ برادری کی خواتین بہت پریشان ہیں۔ وہ اپنے رشتہ داروں، بھائیوں اور والدین سے بچھڑنے کے غموں سے گزری ہیں۔ پیشہ وارانہ مہارت کی کمی اور پُر آشوب ماحول میں خود مختاری و آزادی سے محرومی نے انہیں ذہنی طور پر متاثر کیا ہے۔

صبا اور اُن کی ٹیم کی کئی لڑکیاں بھی ذہنی طور پر پریشان ہیں۔ صبا کے مطابق ہر ہزارہ گھرانے نے دہشت گردی کے ہاتھوں اپنے کسی پیارے کو کھویا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں ہمیشہ صدمے اور پریشانی کی زد میں رہتی ہیں۔

کوچ کی حیثیت سے صبا بہادری کا مظاہرہ تو کرتی ہیں لیکن بحیثیتِ انسان وہ بھی کبھی کبھار ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں۔

صبا نے خاندان بھر کے لیے کونسلنگ سیشنز کا آغاز کیا، جن کا مقصد انہیں خوف سے نکالنا تھا۔ یہ سیشنز گرلز اسکول کی پرنسپل کی مدد سے کیے گئے تھے، جن کے نتیجے میں اب والدین اپنی بیٹی کی زندگی میں فٹ بال کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ لڑکیاں ذہنی طور پر پریشان ہیں اور ضرورت ہے کہ انہیں باہر جانے دیا جائے۔ فٹ بال کھیلنے اور گھر کے بند ماحول سے باہر نکل کر انہیں بہتر محسوس ہوگا۔

کراچی میں شمسیہ علی نے کہا کہ ماحول کی تبدیلی نے انہیں اعتماد دیا ہے۔ میں باہر کے لوگوں سے مل رہی ہوں۔ دوسرے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں اور کھیل کے لیے ان کے جذبات بھی دیکھ رہی ہوں۔ ذہنی طور پر اب مجھے لگتا ہے کہ میں فٹ بال میں آگے بڑھ سکتی ہوں۔

‏40 سالہ علی ہنر دوست ایک کھلاڑی کے والد ہیں۔ خاندان کی اکثریت کے برعکس وہ اپنی بیٹی کو سفر کرنے اور کھیلنے کی اجازت دینے سے گھبرا رہے تھے۔ "لوگ اپنی زندگی کے خوف میں مبتلا ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس منفی ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہیے۔ ہم آگے تبھی بڑھ پائیں گے جب مرد اور خواتین کو یکساں مواقع ملیں گے۔”

علی ہنر دوست کی 20 سالہ بیٹی دو سالوں سے فٹ بال کھیل رہی ہے۔ "وہ اسکول میں تو بہت خاموش طبع ہے لیکن کھیل میں ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھاتی ہے۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ فٹ بال کی تربیت کا آغاز کرے۔ اب میں اس کی تمام کامیابیوں میں اس کا سہارا بننا چاہتا ہوں۔ میری دوسری بیٹی بھی ہے جو مارشل آرٹس کرتی ہے۔

بلوچستان میں چیک پوسٹس اور سکیورٹی بڑھانے کے باوجود ہزارہ برادری پر حملے اب بھی جاری ہیں۔ جلیلہ حیدر کے مطابق صورتِ حال اب بھی غیر یقینی ہے۔ "ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ صورتِ حال بہتر ہوئی ہے یا نہیں۔ کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہوگا اور پھر اچانک کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ ہزارہ برادری کو تحفظ کا احساس دینے کی ضرورت ہے۔ہمیں خود مختاری اور یکساں مواقع کی ضرورت ہے۔ اسی سے ہم ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔”

شمسیہ علی اور صغریٰ رجب اب بھی آگے بڑھنے کی خواہاں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر فٹ بال کھیلنا چاہتی ہیں۔ "ہم سب پُر عزم ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم اتنی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود کراچی تک پہنچ سکتے ہیں تو تصور کیجیے کہ حالات بہتر ہوں تو ہم کہاں تک جا سکتے ہیں۔”

 

One Ping

  1. Pingback: میدان میں کامیابیاں سمیٹتی اور صنفی مساوات کی جنگ لڑتی پاکستان کی فٹ بال اسٹار - دی بلائنڈ سائڈ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے