پنجاب میں لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ نے سرکاری ملازمت میں خواجہ سراؤں کے لیے 2 فیصد کوٹا مختص کر دیا ہے۔
یوں مقامی حکومتوں، کونسلوں (میٹروپولیٹن/میونسپل کارپوریشن، یونین کونسل وغیرہ) میں، اندرونِ لاہور اتھارٹی، لوکل گورنمنٹ بورڈ اور لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں دو فیصد ملازمتیں خواجہ سراؤں کو مل سکتی ہیں۔
سیکریٹری لوکل گورنمنٹ اینڈ کمیونٹی ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ نور الامین مینگل کہتے ہیں کہ ہم دو فیصد خالی آسامیوں پر ان خواجہ سراؤں کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جو روزگار کے مواقع میسر نہ ہونے کی وجہ سے چوک چوراہوں، سڑکوں اور بازاروں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ یہ قدم آئینِ پاکستان کے تحت اٹھایا گیا ہے کیونکہ آئین تمام شہریوں کو بلا امتیاز یکساں حقوق دینے کا عہد کرتا ہے۔
پاکستان کی آخری مردم شماری کے مطابق ملک کی کُل آبادی 20.76 کروڑ ہے۔ جس میں 10.6 کروڑ مرد اور 10.1 کروڑ خواتین ہیں جبکہ 3,21,744 خواجہ سرا ہیں۔
ڈپارٹمنٹ کے ورکنگ پیپر کے مطابق خواجہ سرا پاکستان کی پسماندہ ترین اور بری طرح نظر انداز کی گئی کمیونٹی ہیں اور ان کے حقوق کے تحفظ اور انہیں با اختیار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں افرادی قوت کا حصہ بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کے لیے 15 فیصد، معذوروں کے لیے 3 فیصد اور اقلیتوں کے لیے 45 فیصد کوٹے کی طرح خواجہ سراؤں کے لیے بھی 2 فیصد کوٹا مقرر کیا گیا ہے۔
پیپر سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوٹے کے مطابق خواجہ سراؤں کو مستقبلِ قریب میں 1,500 آسامیاں مل سکتی ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان کو محض نچلے درجے کی نوکریاں دینا مقصود نہیں بلکہ اس وقت چند افسران کی نشستیں بھی خالی ہیں، اس لیے اگر خواجہ سرا اس کی اہلیت رکھتے ہیں تو درخواست دے سکتے ہیں اور شفاف عمل کے ذریعے افسر بھی بن سکتے ہیں۔
خواجہ سرا برادری نے بھی اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اس سے خواجہ سراؤں کو معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنے کی تحریک ملے گی۔
جواب دیں