صولت سجاد، پاکستان کی پہلی خاتون ٹرانس پلانٹ سرجن

صولت سجاد شیخ پاکستان کی پہلی ٹرانس پلانٹ سرجن ہیں جنہوں نے حال ہی میں امریکا کی یونیورسٹی آف الاباما، برمنگھم کے ڈویژن آف ٹرانس پلانٹیشن کی اسسٹنٹ پروفیسر سے گریجویشن کی ہے۔

آغا خان یونیورسٹی، کراچی سے طب کی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر صولت نے بعد ازاں ریاست پنسلوینیا کے یارک ہسپتال میں ہاؤس جاب مکمل کی اور پھر یونیورسٹی آف الاباما میں ابڈومینل ٹرانس پلانٹیشن اینڈ ہپاٹوبلیئری سرجری فیلوشپ 2020ء سے گریجویشن کیا۔

اس دوران معدے و آنت کی سرجری میں ان کی مہارت تسلیم کی گئی لیکن وہ گردے اور جگر کی پیوند کاری کے بعد کسی کی زندگی بدلنے کی خوشی کا تجربہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ اب آخری اسٹیج کی بیماری کا علاج کرنا اور کسی مریض کو نئی زندگی دینا ڈاکٹر صولت کا مشن ہے۔

پاکستان کی پہلی ٹرانس پلانٹ سرجن بننے سے پہلے ڈاکٹر صولت نے کئی رکاوٹیں عبور کیں۔ پاکستان میں رجسٹرڈ میڈیکل ڈاکٹروں کی تعداد تقریباً 70 فیصد ہے اور جب انہوں نے اس شعبے کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا تو کسی خاتون ڈاکٹر کے لیے سرجری میں جانا ہی حیران کُن سمجھا جاتا تھا، الّا یہ کہ کوئی ابڈومینل ٹرانس پلانٹیشن کے شعبے میں جانے کی بات کرے۔

ڈاکٹر صولت کہتی ہیں کہ پیوند کاری کی سہولت پاکستان میں با آسانی دستیاب نہیں ہے اور ملک میں چند ہی ٹرانس پلانٹ سینٹرز موجود ہیں۔ مجھے پاکستان میں طبّی تعلیم کے بہترین اداروں میں سے ایک میں تعلیم حاصل کرنے اور پھر امریکا میں اپنی تربیت مکمل کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

حالیہ تحقیق کے مطابق آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی 72 فیصد خواتین سرجنز کا کہنا ہے کہ اس کیریئر میں انہیں اپنی صنف کی وجہ سے رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تقریباً 40 فیصد خواتین نے کہا کہ ان کے خاندان یا قریبی دوستوں نے سرجری کو بطور کیریئر اپنانے پر ان کی حوصلہ شکنی کی تھی۔

لیکن ڈاکٹر صولت کو صرف صنفی وجہ سے ہی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ انہیں ذاتی طور پر بھی چند چیلنجز درپیش رہے۔ مثلاً جب انہوں نے اپنی دو سالہ فیلوشپ کا آغاز کیا تھا تو تب وہ اپنی 7 ماہ کی بیٹی کو بھی تنہا سنبھال رہی تھیں۔ اس وقت ان کے شوہر زین ہاشمی بالٹی مور کے سینائی ہسپتال میں ہاؤس جاب کر رہے تھے۔

والدین کی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر صولت کہتی ہیں کہ "میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے والدین نے ہر دستیاب موقع کا فائدہ اٹھانے کی اجازت دی اور اپنی منزل کو پانے کے لیے دنیا کے کسی بھی مقام پر جانے دیا۔ انہوں نے ٹرانس پلانٹ سرجن بننے کی کوشش میں میری حوصلہ افزائی کی، باوجود اس کے کہ خاندان کے دیگر لوگوں کو اعتراض تھا۔” صولت شیخ کے والدین ریٹائرڈ ڈاکٹرز ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ "جب میں نے اس سفر کا آغاز کیا تھا تو یہ کوئی دُور پرے کی منزل لگتی تھی لیکن اب میں اس منزل پر پہنچ چکی ہوں اور اپنے خواب کی تعبیر پا رہی ہوں۔”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے